مجھے اب بھی وہ وقت یاد ہے کہ جب بچپن میں میرے والد محترم ٹویوٹا کورونا مارک II کی پچھلی نشست پر بٹھا کر ہمیں سفر پر لے جاتے تھے۔ اپنے وقتوں کی خوبصورت ترین گاڑیوں میں شمار ہونے والی اس گاڑی کو RT100 سیریز بھی کہا جاتا تھا۔ اس گاڑی کی تیاری میں کار ساز ادارے نے کافی محنت اور تندہی سے کام کیا تھا۔ اس میں طاقتور انجن لگایا گیا تھا جو پچھلے پہیوں کی قوت سے گاڑی چلانے میں مدد کرتا تھا۔ اس میں سفر انتہائی پرسکون اور آرمدہ تھا اور یہی دنیا میں اس کے مقبول ہونے کی بڑی وجہ تھی۔
میں اکثر پاک ویلز بلاگ اور فورمز پر آتا رہتا ہوں اور یہاں نئی و پرانی گاڑیوں سے متعلق لوگوں کے مضامین اور گفتگو سے لطف اندوز ہوتا رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میرے دوست عثمان انصاری نے اپنی ٹویوٹا کورونا RT40 پر بلاگ تحریر کیا جو انتہائی معلوماتی اور دلچسپ تھا۔ اس بلاگ کو پڑھتے ہوئے مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک خوبصورت جاپانی گاڑی یاد آگئی۔ اس سے قبل میں نے کبھی گاڑیوں سے متعلق نہیں لکھا تھا تاہم عثمان انصاری کے بلاگ نے مجھے اس حد تک متاثر کیا کہ میں نے بھی اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرنے کا حوصلہ کر ہی لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹویوٹا کورونا RT40؛ ایک بھولی بسری داستان!
میرے والد کے پاس ٹویوٹا RT100 طویل عرصے تک رہی۔ انہوں نے یہ گاڑی اپنی شادی سے پہلے خریدی اور پھر جب میری پیدائش ہوئی تو مجھے بھی ہسپتال سے گھر اسی گاڑی میں لے جایا گیا تھا۔ یوں میں نے زندگی میں پہلی بار جس گاڑی میں سفر کیا وہ RT100 ہی تھی۔ پھر دور طالب علمی میں اسکول اور کالج آنے جانے کے لیے بھی اسی ٹویوٹا کورونا میں محو سفر رہا۔ میری اور میرے خاندان کی بہت سے خوشگوار یادیں اسی ٹویوٹا کورونا سے جڑی ہیں اور آج جب بھی ہم اپنے خوشگوار ماضی کو یاد کرتے ہیں کہیں نا کہیں یہ گاڑی بھی نظروں میں رہتی ہے۔
70 کی دہائی میں ٹویوٹا کورونا جیسی گاڑی رکھنا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر لوگ بسوں میں سفر کرتے ہتھے اور بہت لوگوں کے پاس گاڑیاں ہوتی تھیں۔ پھر کورونا (Corona) کا شمار تو پرتعیش اور بڑی گاڑیوں میں کیا جاتا تھا یوں اسے رکھنا کسی اعلی رتبہ کا حامل ہونا جیسا تھا۔ حتی کہ بڑے نجی ادارے بھی ایسی گاڑیاں صرف اپنے بڑے افسران کو ہی دیتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِٹی، آمنہ حق اور نئی طرز کی منفرد گاڑی
اس گاڑی کا لمبا ویل بیس مسافروں کو آرامدے سفر فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کردار ادا کرتا تھا۔ اگلی نشستیں بینچ نما بنائی گئیں تھیں جس پر تین مسافر بہت آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ اس گاڑی کی ڈگی میں بھی کافی جگہ موجود تھی اور انجن تو اس زمانے کا طاقتور ترین یعنی 1600 سی سی شامل تھا۔انجن کے ساتھ 3 – اسپیڈ مینوئل گیئر باکس منسلک تھا اور لیور اسٹیئرنگ کے ساتھ ہی موجود تھا۔ اس گاڑی کا سسپنشن کافی مضبوط رکھا گیا تھا تاکہ زیادہ افراد کے گاڑی میں بیٹھنے یا اضافی بوجھ ہونے کی صورت میں اس کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔
اس گاڑی کے اگلے اور پچھلے بمپرز، پہیوں کے کوورز، دروازوں کے ہنڈل، ایندھن جمع رکھنے والا ٹینک، اگلی گرل، دائیں و بائیں موجود سائیڈ مررز حتی کہ ریڈیو کا انٹینا بھی زنگ لگنے سے پاک اسٹیل سے بنایا گیا تھا۔ ان تمام چیزوں کو مختلف رنگ سے بھی رنگا گیا تاکہ یہ دیکھنے میں بھی خوبصورت لگیں۔ اس کے مقابلے میں آج کل کی گاڑیاں Rap میوزک والے جوشیلے نوجوان کے مختلف رنگوں والے موبائل معلوم ہوتی ہیں۔
گاڑی کا باہری حصہ انتہائی اعلی معیار کی دھات سے تیار کیا گیا تھا جس پر ہونے والا رنگ بھی معیار میں بہترین تھا۔اسی طرح اندرونی حصے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی تھی اور بہت اعلی معیار کا چمڑے سے نشستیں تیار کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ دروازوں پر بھی معیاری ساز و سامان لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایئر کنڈیشننگ، ریڈیو اور کیسٹ پلیئر بھی معیاری تھے۔
ٹویوٹا کورونا کے ڈیزائن کی سب سے خاص بات یہ تھی اس میں مسافروں کی حفاظت اور آرامدے سفر کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر اگلے اور پچھلے پہیوں پر چلنے کے دوران مسافروں کو جھٹکوں یا ہچکولوں سے بچانے کے لیے تمام تر دباؤ گاڑی کی باڈی ہی پر رکھا گیا تھا۔اس کا لمبا ویل بیس اور مضبوط بمپر کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں مسافروں کو محفوظ رکھ سکتا تھا۔یہ اس گاڑی کے ڈیزائن کی سب سے منفرد اور قابل تحسین بات ہے۔
ٹویوٹا کورونا مارک II – RT100 سیریز دنیا بھر میں RT40 اور RT80 کی زبردست کامیابی کے بعد متعارف کروائی گئی تھی۔ عالمی سطح پر RT100 مختلف انداز میں دستیاب تھیں جن میں 2 اور 4 دروازوں والی سیڈان، 5 دروازوں والی اسٹیشن ویگن اور 2 دروازوں والی ہارڈ ٹاپ ماڈل بھی شامل ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور 4 دروازوں والی سیڈان کو حاصل ہوئی اور دیگر ماڈلز کے مقابلے میں سیڈان کی فروخت کافی نمایاں رہی۔ اس میں 1600 سی سی 4 سلینڈر انجن لگایا گیا تھا جو 3 اسپیڈ مینوئل ٹرانسمیشن سے منسک تھا۔
ٹویوٹا کرونا RT100 کے اس ماڈل کی فروخت 1974 سے 1977 تک جاری رہی۔ اس دوران تھوڑی بہت تبدیلیاں کی جاتی رہیں تاہم اس کا نیا انداز (فیس لفٹ) 1979 میں متعارف کروایا گیا جس میں گرل، چھت اور اگلی لائٹس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ گاڑی بھی تاریخ کی کتاب میں گم ہوگئی۔ نئی گاڑیاں آتی گئیں اور لوگ RT100 کو فراموش کرتے چلے گئے۔ اس کے پرزوں کی دستیابی اور مکینک سے مانوسیت بھی کافی مسائل کی وجہ رہی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس کسی نے بھی اس گاڑی کو ایک بار استعمال وہ زندگی میں شاید کبھی اسے بھلا نہیں پائے گا۔
کئی ممالک میں گاڑیوں کے شوقین افراد نے اس گاڑی کو طویل عرصے تک اپنے پاس رکھا۔ کچھ لوگوں نے اس تاریخی گاڑی کو خرید کر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا اور اسے استعمال کرتے رہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا شوق نظر نہیں آتا۔ میں نے اکثر اس گاڑی کو کسی گیراج میں یا سڑک کنارے لوگوں کی عدم توجہ کا نشانہ بنے دیکھا ہے۔
پرانی اور یادگار گاڑیوں کو اپنے پاس رکھنا اور ان میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کرنا ایک مہنگا شوق کہا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹویوٹا کورونا RT100 جیسی گاڑیاں اب پاکستان میں بہت کم نظر آتی ہیں۔ یہ بات ہر کسی کے بس میں نہیں کہ وہ ایسی گاڑیوں میں من پسند تبدیلی کرے اور اسے آج بھی سڑکوں پر چلائے۔ پرزوں کی عدم دستیابی بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جس کا سامنا قدیم گاڑیاں رکھنے والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں نے گاڑی میں ضروری تبدیلیوں کے لیے متبادل پرزے استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم اس سے نہ صرف گاڑی کی کارکردگی متاثر ہوئی بلکہ اس کا انداز بھی بھدا ہوگیا۔
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے کہ جب ہم نے ٹویوٹا کورونا کو بیچنے کا فیصلہ کیا۔ اس گاڑی سے ہماری کئی خوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ اس لیے فروخت کرنے کا فیصلہ بہت مشکل ثابت ہوا۔ تاہم اسے اپنے پاس رکھنا بھی ممکن نہ تھا لہٰذا دل پر پتھر رکھ کر اسے رخصت کر ہی دیا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے بھی مجھے وہ وقت شدت سے یاد آرہا ہے کہ جب کورونا RT100 ہمارے سڑکوں پر رواں دواں ہوتی تھی۔
کیا آپ کی یادیں بھی کسی ایسی گاڑی سے جڑی ہیں جو آپ کو ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور کردیتی ہیں؟