روپے کی گھٹتی قدر نے استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا

0 309

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالرز کی بڑھتی ہوئی قیمت کا رحجان گزشتہ چند مہینوں میں استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ پر بری طرح اثر انداز ہوا ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں تقریباً 250 شورومز بند ہو چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کے بعد گاڑیوں کی درآمد میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی۔ یہ صورتحال کہیں زیادہ گمبھیر ہو گئی ہے کیونکہ پچھلے کچھ مہینوں میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح نےان تمام ممکنہ خریداروں کو بھی باہر کردیا کہ جن کی جیب معمولی سی استطاعت بھی رکھتی تھی اور یوں امپورٹرز کے لیے ملک میں کاروبار کرنا غیر منافع بخش ہو گیا۔ گزشتہ دو مہینوں میں خاص طور پر کار مارکیٹ پر بحران کا بم گرا ہے۔ لاہور کراچی کے بعد ملک میں استعمال شدہ گاڑیوں کا فروخت کا دوسرا بڑا مرکز ہے جس کے جیل روڈ، سمن آباد، مولانا شوکت علی روڈ اور ڈیفنس میں بڑے بڑے شورومز ہیں۔ ان میں سے متعدد ری کنڈیشنڈ جاپانی گاڑیاں درآمد کرتے تھے کہ جو مقامی طور پر بننے والی گاڑیوں کے مقابلے میں اپنے آرام، سیفٹی اور بھروسہ مندی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال امپورٹرز کے لیے  ڈراؤنا خواب بن گئی۔

مزید یہ کہ افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے صارفین کی قوتِ خرید بھی پچھلے چھ مہینوں میں کافی کم ہوگئی ہے۔ نتیجتاً استعمال شدہ مقامی اور درآمد شدہ گاڑیوں کی فروخت میں تقریباً 30 فیصد کمی آئی ہے۔ پوری صنعت ہی اس سے متاثر ہوئی ہےکیونکہ اسپیئر پارٹس کے کاروبار کو بھی گاڑیوں کی فروخت میں آنے والی کمی سے سخت دھچکا پہنچا ہے۔ لاہور میں 2019ء کے آغاز پر تقریباً 1200 شورومز تھے، اور اب ان میں تقریباً 250 کی کمی آ چکی ہے۔ اگر موجودہ معاشی صورت حال جاری رہی تو مستقبل میں مزید کی بھی کمی آئے گی۔ گاڑیوں کی فروخت میں آنے والی یکدم کمی کا نتیجہ کاروبار سے منسلک افراد کے لیے اربوں کے نقصان کی صورت میں نکلا ہے۔

درآمد شدہ گاڑیوں کی قیمتیں صارفین کی قوتِ خرید سے کہیں باہر ہو چکی ہیں۔ صرف چند مہینوں میں ہی 660cc کی گاڑیوں کی قیمت 10 سے 16 لاکھ روپے پر جا پہنچی ہے۔ استعمال شدہ 1000cc کی گاڑیوں کی قیمت 15 لاکھ سے 20 لاکھ روپے ہو چکی ہے۔ اوسطاً 1000cc سے 1800cc اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں کی قیمتوں میں 2,00,000 سے 5,00,000 لاکھ روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈیلرز کے مطابق ایک شو روم ہر مہینے میں اوسطاً 8 سے 9 گاڑیاں فروخت کرتا تھا، جو شرح اب گھٹتے ہوئے 2 سے 3 گاڑیوں تک پہنچ چکی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی شرح کی وجہ سے ہونے والا افراطِ زر نے انہیں بقاء کا سوچنے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ وہ اتنی کم فروخت کے ساتھ تو اپنے کرائے بھی ادا نہیں کر پا رہے۔ کار شوروم کے لیے کرائے پر جگہ کی لاگت تقریباً 2,00,000 سے 3,00,000 لاکھ روپے ہوتی ہے جو موجودہ صورت حال میں نکالنا مشکل ہے۔ زیادہ تر شورومز نے ملازمین کی چھانٹی بھی شروع کردی ہے، جن کی تعداد پہلے ہی 4 سے 5 افراد سے زیادہ نہیں۔ اس کاروبار سے منسلک زیادہ تر افراد نے اب گاڑیوں کے خریداروں کی تلاش شروع کردی ہے، یہ صورت حال انہیں ماضی میں بالکل پیش نہیں تھی کہ جب ڈالر 100 روپے کا تھا۔

حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کی پالیسی مقامی صنعت کے لیے اچھی ہے، لیکن ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والے اداروں کو بھی یکساں متاثر کیا ہے۔ یوں صارفین کےلیے مارکیٹ میں پسند کے لیے کوئی اختیار نہیں رہا، جو تشویش کی بات ہے۔ یہ منظرنامہ موجودہ اداروں اور ساتھ ساتھ پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں آنے والے نئے اداروں کے لیے بھی بھیانک ہے۔ تمام آٹو مینوفیکچررز مارکیٹ میں گاڑیوں کی قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یوں ان کے منافع کی شرح گھٹتی جا رہی ہے۔

اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ہمیں تبصروں میں ضرور بتائیں۔ آٹوموبائل انڈسٹری کی تازہ خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.