گاڑیوں کے شوقین افراد کے لیے سرپرائز – وزارت موسمیاتی تبدیلی EVs کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دینے کی خواہشمند

1 197

درآمد پر عائد پابندیوں کے بعد پاکستان میں گاڑیوں کی غیر قانونی اور ناجائز درآمد 75 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ چند حوالوں سے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اس کے دوسرے نتائج بھی ہیں۔ اس لیے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت صارفین کے ساتھ ساتھ ماحول کو فائدہ پہنچانے کے لیے بھی ایک نئی پالیسی لانے کی خواہش مند ہے۔ اور ساتھ ساتھ وزارت موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی پالیسی میں بہت دلچسپی رکھتی ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کی بغیر ڈیوٹی درآمد کی اجازت دے گی۔ اگر اس پالیسی کو نافذ کیا گیا تو یہ ملک میں روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے خاتمے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اور توقع کے عین مطابق گاڑیاں بنانے والے تینوں بڑے ادارے اس تجویز سے خوش نہیں ہیں۔ 

متوقع طور پر کابینہ کے اگلے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کی جانے والی اس تجویز کا مسودہ وزارت موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی ویب سائٹ پر پیش کر چکی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اسے ہٹا دیا گیا۔ یہ بھی دعوے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ آٹو سیکٹر کے معاملات وزارت صنعت کے لیے چھوڑ دے، لیکن مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے ایک نہ سنی اور پالیسی پر اپنا کام جاری رکھا۔ الیکٹرک کاروں کی درآمد کو ڈیوٹی فری کرنے کی خواہش کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ گاڑیاں پہلے ہی بہت مہنگی ہیں اور اکثر لوگ انہیں ویسے ہی نہیں خرید سکتے۔ اس لیے انہیں امید ہے کہ صفر ڈیوٹی کی اسکیم ابتدائی کشش حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ 

بگ تھری کے تین خوف 

اب اس نکتے کی طرف آتے ہیں کہ اس تجویز پر لوکل مینوفیکچررز کیوں خوش نہیں؟ سب سے پہلے یہ کہ وہ کسی بھی صورت مقابلے کی فضاء نہیں دیکھنا چاہتے۔ پھر ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے موجودہ صنعت کے خاتمے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ دوسرا ہزاروں افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے۔ کیونکہ گاڑیوں کی پیداوار پہلے ہی سست روی کا شکار ہے، اس لیے نئی پالیسی آٹو انڈسٹری کا آخری سانس بھی چھین سکتی ہے۔ اور آخر میں ان کمپنیوں کو یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر امپورٹرز نے ملک میں الیکٹرک کاروں کے پارٹس فروخت کرنا شروع کردیے تو آٹو پارٹس کی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ 

بہتر حل 

ملک امین اسلم (مشیر وزیر اعظم) اور انڈس موٹر کمپنی (علی جمالی) کے درمیان ملاقات میں دونوں نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے الیکٹرک وہیکل پالیسی کے فوائد پر بات چیت کی۔ علی جمالی کے پاس اپنا حل تھا کہ موجودہ مینوفیکچررز کو الیکٹرک کاریں مقامی سطح پر بنانے کی حوصلہ افزائی میں مدد دی جائے، بجائے اس کے کہ یہ گاڑیاں دوسرے ملکوں سے خریدی جائیں۔ گو کہ اصل میں یہ آئیڈیا اچھا ہے لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو پاکستان تو چھوڑیں بین الاقوامی سطح پر بھی سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا کی شاید ہی ایسی کوئی الیکٹرک کار موجود ہے جو صارفین کے لیے دستیاب ہو۔ اگر کوئی معجزہ بھی ہو جائے اور ہم بگ تھری کی جانب سے الیکٹرک کاریں دیکھنا بھی شروع ہو جائیں تو معیار اور اعتماد بہت بڑا سوال ہوگا کیونکہ الیکٹرک کاریں ایسی نہیں کہ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ 

پرجوش ہونے کا وقت آ گیا؟ 

میں تو یہی مشورہ دوں  گا کہ زیادہ امیدیں نہ لگائیں اور ڈیوٹی فری الیکٹرک کار حاصل کرنے کے لیے ابھی سے اپنی موجودہ گاڑی نہ بیچ ڈالیں۔ اس پالیسی کے عملی طور پر لاگو ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جو ابھی حال ہی میں بجلی کے بحران سے نکلا ہے، اور چارجنگ اسٹیشنوں کا انفرااسٹرکچر سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا، ایسی گاڑیوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ابھی بہت دور ہے۔ الیکٹرک کاریں بالکل بھی  سستی نہیں اور عام صارف کے لیے مناسب رینج رکھنے والی ایک ایسی گاڑی تقریباً 35,000 ڈالرز کی پڑتی ہے۔ گو کہ ٹیسلا ماڈل 3، نسان لیف اور رینو (رینالٹ) زو پاکستان کے لیے ایک مناسب آپشن لگتی ہیں لیکن ان کی قیمت بغیر ڈیوٹی کے ساتھ بھی 50 لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ جو پاکستان کے اوسط صارف کی قوتِ خرید سے کہیں زیادہ ہے۔ دیکھتے ہیں موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کیا حل پیش کرتی ہے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.