اکتوبر میں بھی ٹویوٹا اور ہونڈا کی پیداوار چند دنوں کے لیے بند رہے گی

0 128

ٹویوٹا انڈس اور ہونڈا اٹلس اکتوبر 2019ء میں ایک مرتبہ پھر غیر پیداواری ایام (NPDs)  کا سامنا کریں گے کیونکہ مقامی آٹو انڈسٹری فروخت کے سلسلے میں مالی سال ‏2019-20ء‎ کی پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباً 39 فیصد کی کمی سے دوچار ہوئی ہے۔ 

اس لیے اکتوبر کے مہینے میں بھی پیداوار کو کم کرنے کے لیے پلانٹس کو بند کرنے کا رحجان برقرار رہے گا کیونکہ گاڑیوں کی مہنگی قیمتوں کی وجہ سے مارکیٹ میں طلب بدستور کم ہے۔ یوں یہ مسلسل چوتھا مہینہ ہوگا کہ دونوں جاپانی اداروں، ٹویوٹا انڈس اور ہونڈا اٹلس، کو NPDs کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خبروں کے مطابق ٹویوٹا اور ہونڈا موجودہ مہینے کے دوران بالترتیب 15 اور 18 دن تک پیداوار کو بند رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ یوں جولائی 2019ء سے اب تک کل غیر پیداواری ایام 50 اور 62  تک جا پہنچے ہیں۔ ملک میں موجودہ صورت حال کسی بھی آٹومیکر کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ PAMA کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے طور پر مجموعی طور پر فروخت میں 39 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ ٹویوٹا اور خاص طور پر ہونڈا ملک میں موجودہ اقتصادی سست روی کے شکار بنے ہیں۔ دوسری جانب پاک سوزوکی نے مذکورہ عرصے میں غیر پیداواری ایام کا سامنا نہیں کیا، ذیل میں غیر پیداواری ایام کو ایک ٹیبل کی صورت میں بیان کیا گیا ہے: 

جیسا کہ یہ ٹیبل  ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں دونوں ہائی-اینڈ جاپانی گاڑیاں بنانے والوں کے لیے حالات بدترین ہو رہے ہیں۔ 660cc آلٹو کی فروخت سے ہٹ  کر دیکھیں تو پاک سوزوکی بھی پہلے دونوں اداروں کے ساتھ ہی کھڑا ہے۔ سوزکی آلٹو اس عرصے کے دوران آٹومیکر کی سیلز کا اہم محرّک رہی۔ مالی سال ‏2019-20ء‎ کی پہلی سہ ماہی میں کمپنی نے آلٹو کے 12,943 یونٹس فروخت کیے، جو کمپنی کے باقی تمام ماڈلز کی کُل فروخت سے بھی زیادہ ہیں کہ جو 10,204 کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ سب سے نمایاں کمی کمپنی کی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی گاڑی ویگن آر کے سلسلے میں دیکھنے کو ملی کہ جو اس عرصے میں 72 فیصد سے زیادہ کمی کا شکار ہوئی اور یوں کمپنی کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔ البتہ عام تاثر یہی ہے کہ ویگن آر کے صارفین نسبتاً چھوٹی اور کم قیمت آلٹو کی جانب منتقل ہوئے۔ غیر پیداواری ایام کے بجائے پاک سوزوکی نے حال ہی میں اپنے چند ماڈلز کی بکنگ روک ختم کی، جو ظاہر کرتا ہے کہ سوزوکی بھی موجودہ اقتصادی حالات میں جدوجہد کر رہی ہے۔ کمپنی نے آلٹو کی زبردست فروخت کی وجہ سے کافی فائدہ حاصل کیا ہے۔ وہ جون 2019ء میں اس گاڑی کی لانچنگ سے اب تک متعدد بار اس کی قیمت میں اضافہ بھی کر چکا ہے۔ گاڑیوں کی قیمت میں اضافے پر بنیادی اثر روپے اور ڈالر کی شرحِ تبادلہ میں آنے والا فرق ہے؛ البتہ آلٹو کے اجراء سے اب تک ڈالر نیچے ہی آیا ہے، جو ان کی جانب سے قیمتوں میں اضافے پر کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ 

پلانٹ اور ملک بھر میں  مجاز ڈیلرز کے پاس موجود ہونڈا اٹلس کی نہ فروخت ہونے والی گاڑیوں کا ذخیرہ  اب بھی 2000 تک ہے۔ IMC کا پیداواری پلانٹ اپنی گنجائش کے 50 فیصد سے بھی کم پر کام کر رہا ہے۔ انڈس موٹر کمپنی اپنی سیلز کو بہتر بنانے کے لیے کرولا ماڈل کے لیے متعدد مارکیٹنگ  طریقے پہلے ہی متعارف کروا چکی ہے، لیکن اب تک کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہونڈا اٹلس نے حال ہی میں اپنی کومپیکٹ ایس یو وی BR-V فیس لفٹ 2019ء کے ذریعے معمولی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ دونوں کمپنیاں اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کے لیے جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ PAMA کے اعداد و شمار برائے ستمبر کے مطابق وہ پہلے ہی کافی مارکیٹ کھو چکی ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ستمبر میں فروخت میں آنے والی کمی بھی پچھلے مہینوں جیسی ہی ہے اور بدقسمتی سے لگتا ہے کہ اگلے ایک سال تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔ گاڑیوں کی فروخت کا رحجان سال کے اختتام پر دھیما ہی رہتا ہے، اور ہم پہلے ہی 2019ء کے آخری تین مہینوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دسمبر 2019ء تک تو کاروں کی فروخت میں کوئی  تبدیلی نہیں آنی۔ صارفین عموماً ماڈل سال کی تبدیلی کا انتظار کرتے ہیں اور اب بھی ان کے سوچنے کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ 

یہ سب مقامی کرنسی کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ شروع ہوا۔ کچھ مہینے پہلے جب ڈالر کی قیمتیں ریکارڈ 164 روپے کو چھونے لگیں تو کاروں کی قیمتیں بھی آسمان کو پہنچنا شروع ہو گئیں۔ حکومت نے گاڑیوں پر ایڈیشنل ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر  اس صورت حال کو بدترین بنا دیا۔ ملک میں بننے والی گاڑیوں کا بڑا حصہ خام مال کی درآمد کی وجہ سے بنتا ہے جس پر حکومت کی جانب سے ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی بڑھا دی گئی۔ مزید برآں، تمام اقسام کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کے 2.5 سے 7.5 فیصد کی شرح سے نفاذ نے گاڑیوں کی قیمتوں پر مزید دباؤ ڈالا۔ بینکوں کی شرحِ سود میں اضافے نے بھی گاڑی کی فائنانسنگ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کار کی مجموعی قیمت کا لگ بھگ 40 فیصد اضافہ اب صارف کی جانب سے ٹیکس کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر ملک میں گاڑیوں کی فروخت پر اثر ڈالا جبکہ صارفین کی قوتِ خرید بھی اس عرصے میں تیزی سے کم ہوئی۔ 

مختلف کار اسمبلرز اور وینڈرز کے مطابق حکومت کو ہر مہینے ٹیکس کلیکشن کی مد میں 2 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہوگا۔ اس صورت حال میں حکومت کو آٹو سیکٹر کی بقاء کے لیے FED جیسے اضافی ٹیکس کے فیصلے واپس لینے چاہئیں۔ کم فروخت پر زیادہ ٹیکس بھی بہرصورت بڑی تعداد پر کم ٹیکس کلیکشن سے کم ہی ہوگا۔ حکومت کو اپنے ٹیکس نفاذ پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی کاروں کی مجموعی قیمتیں کم کرنے کے لیے گاڑیوں کو بنانے میں استعمال ہونے والے پرزے مقامی طور پر تیار کرنے کے لیے آٹومینوفیکچررز پر دباؤ بھی بڑھانا چاہیے۔ آٹو سیکٹر کی خراب صورت حال کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں، جو براہ راست آٹومینوفیکچرنگ کمپنیوں سے تعلق رکھتے تھے یا انہیں پرزے فراہم کرنے والے وینڈرز کے پاس کام کرتے تھے۔  پھر 2016ء میں نئی آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی متعارف کروائے جانے کے بعد متعدد نئے ادارے بھی پاکستان کے آٹو سیکٹر میں داخل ہوئے، یہ پالیسی ان اداروں کو ٹیکس پر متعدد رعایتیں دیتی ہے۔ نئے ادارے کو اپنی بقاء اور مقامی شعبے میں مقابلے کی دوڑ میں برقرار رہنے کے لیے اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے، جبکہ ان کا سامنا جاپان کے تین بڑے اداروں سے ہے۔ 

اپنی قیمتی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔ آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.