پاکستان ادارۂ شماریات (PBS) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20ء کے ابتدائی دو ماہ میں ملک میں گاڑیوں کی امپورٹ یعنی درآمد میں تقریباً 85 فیصد آئی ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ completely built units یعنی CBUs کی درآمد مالی سال 2019-20ء کے ابتدائی دو ماہ میں 9.46 ملین ڈالرز تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں یہ 61.88 ملین ڈالرز تھی۔ اسی طرح completely knocked-down یعنی CKDs کی درآمد میں بھی اسمبلنگ کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے 15.46 فیصد کی کمی آئی۔ پچھلے مالی سال کے ابتدائی دو مہینوں کے دوران 145.5 ملین ڈالرز کی درآمدات کے مقابلے میں مالی سال 2019-20ء کے پہلے دو مہینوں میں درآمدات 123 ملین ڈالرز کی رہیں۔
مالی سال 2019-20ء کا آغاز کسی بھی طرح سے مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے مثالی نہیں رہا۔ درحقیقت معاملات بہت تھوڑے عرصے میں بدترین صورت اختیار کرگئے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں آٹو انڈسٹری تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ البتہ مالی سال 2019-20ء کے ابتدائی دو مہینوں میں حکومت کی جانب سے کاروں کی درآمد پر پابندی لگانے کے اقدامات نے بخوبی کام کیا۔ اس اچانک کمی کی بڑی وجوہات میں سے ایک حکومت کی جانب سے کاروں کی درآمد پر متعدد پابندیاں لگانا ہے جس کے تحت ان کی کسٹمز کلیئرنس صرف ویریفائیڈ پیمنٹ کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ترسیلِ زر (remittances) اس پاکستانی شہری کے اکاؤنٹ سے ہونی چاہیے کہ جو ملک میں گاڑی بھیج رہا ہے۔ اکاؤنٹ نہ ہونے کی صورت میں یہ رقم خاندان کے کسی قریبی فرد کے اکاؤنٹ میں وصول کی جا سکتی ہے۔ حکومت پرسنل بیگیج، گفٹ اسکیم یا ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے تحت ہی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہ اقدامات مارکیٹ میں ضابطے کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے تھے۔ اس سے پہلے ان اسکیموں کے تحت صرف 5 فیصد گاڑیاں ہی حقیقی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی درآمد کرتے تھے۔ کار امپورٹرز کی اکثریت گاڑیاں درآمد کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاسپورٹ استعمال کرتی تھی۔ گاڑیوں کی درآمد کے غیر قانونی طریقوں کی وجہ سے ملک کو منی لانڈرنگ اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے بیرونِ ملک جانے سے بڑا نقصان ہوتا تھا۔ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگنے کا سب سے زیادہ فائدہ پاک سوزوکی کو ہوا۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی بڑی تعداد ملک میں جاپانی مارکیٹ ہی سے درآمد کی جاتی تھی۔ ان میں سے بیشتر گاڑیاں660cc انجن رکھنے والی ہیچ بیک کیٹیگری کی ہوتی تھیں۔ اس شعبے میں مقامی آٹو سیکٹر میں پاک سوزوکی کا راج ہے۔ درآمد شدہ ہیچ بیکس پر پابندی کا نتیجہ پاک سوزوکی کی مقامی طور پر تیار ہونے والی سستی ہیچ بیکس کی فروخت میں اضافے کی صورت میں نکلا۔
ہماری طرف سے اتنا ہی۔ آٹوموبائل انڈسٹری کے اعداد و شمار کے حوالے سے ایسی تحاریر کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں اور اپنی قیمتی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔