ریٹائر ہونے کے بعد صدر کی گاڑیوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟

0 193

آپ کو اندازہ ہوگا کہ امریکا کے صدر کی گاڑیوں میں سیفٹی کا لیول کیا ہوتا ہوگا۔ انہیں اِس طرح بنایا جاتا ہے کہ کسی بھی خطرناک ترین صورت حال میں بھی انہیں کچھ نہ ہو، چاہے بم دھماکا ہی کیوں نہ ہو جائے یا گاڑیوں پر براہ راست گولیاں کیوں نہ چلائی جائیں۔ دوسرے ملکوں میں تو حکمرانوں کے زیر استعمال رہنے والی گاڑیاں پرزے نکالنے کے لیے کباڑ میں پھینک دی جاتی ہیں یا پھر گاڑیوں کے شوقین افراد کو فروخت کردی جاتی ہیں تاکہ وہ انہیں نئی زندگی دے سکیں۔ لیکن زیادہ تر انہیں پھینک کر بھلا دیا جاتا ہے یا پھر انہیں عجائب گھروں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ لیکن امریکی صدر کی گاڑیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ریٹائر ہونے کے بعد اس کے ساتھ آخر ہوتا کیا ہے؟ 

سالہا سال میں صدر کی گاڑی میں سیفٹی کو مؤثر بنانے کے لیے انجینیئرز نے بڑے اضافے کیے ہیں۔ صدر کی زیر استعمال گاڑی کا استعمال تب سے ایک روایت ہے جب سے امریکی صدر کے لیے پہلی بار چار گاڑیاں خریدی گئیں۔ اس سے پہلے امریکی صدور گھوڑا گاڑی میں سفر کرتے تھے، وہ تو گولیوں اور دھماکا خیز مواد کے نشانے پر ہوتی تھیں۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ کی گاڑی، جسے سن سائن اسپیشل کہا جاتا تھا، کو 1942ء میں پرل ہاربر حملے کے بعد دوبارہ ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس میں بلٹ پروف شیشوں اور بکتر بند پلیٹوں کا استعمال ہوا۔ سب مشین گن چلانے کے لیے اندر سے ایک جگہ بھی بنائی گئی تھی، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں صدر کا دفاع کیا جا ئے۔ 

پھر سال گزرتے گئے اور ان گاڑیوں میں جدتیں آتی رہیں، صدر کی گاڑیاں آج بھی سکیورٹی اور سیفٹی کے ساتھ ساتھ رازداری کے لحاظ سے بھی ارتقاء کے مراحل طے کرتی جا رہی ہیں۔ سیکرٹ سروس اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ صدر کی گاڑی کی حقیقی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کم افراد کو معلوم ہو۔ کیونکہ اگر خفیہ معلومات کا کوئی بھی حصہ لیک ہو گیا تو گاڑی خطرے کی زد پر آ جائے گی اور سکیورٹی کے حوالے سے یہ بڑی غفلت ہوگی۔ جب صدارتی گاڑی ریٹائر ہو جاتی ہے اور اس کا استعمال ترک کردیا جاتا ہے تو یہ سیکرٹ سروس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس گاڑی کو اچھی طرح تلف کردے۔ 

اب ذرا گاڑی کو تلف کرنے کا معاملہ دیکھیں۔ یہ گاڑی ہائی پاور گنوں کے ساتھ فائرنگ کرکے اور دھماکا خیز مواد استعمال کرکے اڑا دی جاتی ہے تاکہ گاڑی اچھی طرح تباہ ہو جائے اور اس کے تمام راز بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں۔ گاڑی کو اس طرح تلف کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح یہ دیکھا جاتا ہے کہ مختلف ہتھیاروں کے مقابلے میں یہ گاڑی کتنی دیر تک بچی رہ سکتی ہے۔ پھر اس کی بنیاد ایک رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور نئی گاڑی کو پچھلی گاڑی سے زیادہ مضبوط بنایا جاتا ہے، جس میں کئی نئی ٹیکنالوجیاں شامل کی جاتی ہیں۔ 

ویسے ہر صدارتی گاڑی کا انجام دھماکے سے اڑا نا نہیں ہوتا، بلکہ کچھ گاڑیوں کو عجائب گھروں میں جگہ مل جاتی ہے۔ جان ایف کینیڈی کی 1961ء کی لنکن کانٹی نینٹل SS-100-X کار، جس میں انہیں قتل کیا گیا تھا اور روزویلٹ کی سن شائن اسپیشل ڈیئر بورن، مشیگن کے ہنری فورڈ میوزیم میں محفوظ ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.