حکومتِ پنجاب 25 اکتوبر سے لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین (OLMT) کا افتتاح کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزردار نے ٹرین کے پورے سسٹم کو آپریشنل کرنے کے لیے حکام کو ہدایت دے دی ہے۔
انہوں نے حکام کو ٹرین کے روٹ کو خوبصورت بنانے کا عمل مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی جانب سے 50 روپے کرائے کی تجویز مسترد ہونے کے بعد پنجاب کابینہ نے کرایہ 40 روپے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
پچھلے مہینے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے چیئرمین جنرل (ر) عاصم باجوہ نے OLMT کے لیے 250 سے زیادہ نئی ملازمتوں کا اعلان کیا ہے۔
اورنج لائن ٹرین کی خصوصیات:
گزشتہ صوبائی حکومت نے لاہور کے شہریوں کو فوری اور آرام دہ سفری سہولیات دینے کے لیے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس کا روٹ 27.1 کلومیٹرز تک پھیلا ہوا ہے، جس میں 1.7 کلومیٹرز انڈر گراؤنڈ اور 25.4 کلومیٹرز elevated یعنی زمین سے بلند ہے۔ ٹرین اپنے روٹ پر موجود 26 اسٹیشنز کے ذریعے روزانہ 2,50,000 مسافروں کو سفری سہولیات دے سکتی ہے۔
پروجیکٹ کے لیے بجلی پر آنے والی لاگت:
اس سے پہلے فروری میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (LESCO) نے انکشاف کیا تھا کہ 90 گھنٹے کے ٹیسٹ رن میں ٹرین نے تقریباً 27 لاکھ بجلی کے یونٹ کھپائے۔ اس لحاظ سے اس پر آنے والی کُل لاگت 5 کروڑ روپے تک ہوگی۔
LESCO کا اندازہ ہے کہ اورنج لائن کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے روزانہ ڈھائی کروڑ روپے کی بجلی خرچ کرنا ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر مہینے حکومت کو بجلی کا75 کروڑ روپے کا بل ادا کرنا ہوگا۔ عام آدمی یہ بل اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ اس کے بدلے میں یہ 27 کلومیٹرز طویل ٹریک پر محدود صارفین کو ہی فائدہ پہنچائے گی۔
اس کے علاوہ حکومت کو ٹکٹ کی قیمت کو 60 روپے رکھتے ہوئے 10 ارب روپے کی اضافی سبسڈی بھی دینا ہوگی ۔ یہ کئی لوگوں کے لیے مناسب کرایہ نہیں ہے، لیکن اس سے زیادہ کرنے پر اس منصوبے کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ ان حالات میں یہ منصوبہ ڈیڈلاک میں پھنستا نظر آتا ہے۔
اس پروجیکٹ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، نیچے کمنٹس سیکشن میں بتائیں۔
آٹو انڈسٹری کے حوالے سے مزید ویوز، نیوز اور ریویوز کے لیے پاک ویلز بلاگ پر آتے رہیے۔