معیاری کولینٹ سردیوں میں بھی اتنا ہی اہم جتنا گرمیوں میں

0 672

کولینٹس ایسی چیز ہیں جنہیں پاکستان میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ پرانی گاڑیوں والے تو اس کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ساڈا پانی زندہ باد!۔ میرے پاس بھی ایک پرانی گاڑی ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ نلکے کے پانی سے ہی چل رہی ہے۔ ایک بار میں نے ایک پراپر اینٹی-فریز استعمال کیا، لیکن گاڑی کیونکہ بہت سی ورکشاپس اور لیکس سے گزری اس لیے میرا اتنا کولینٹ ضائع ہوا کہ میں نے اسے خاطر میں لانا ہی چھوڑ دیا۔ لیکن میں نے ایک مرتبہ پھر کولینٹ کا فیصلہ کیا۔ پری-مکسڈ ZIC کولینٹ 1435 روپے میں خریدا۔ ریڈی ایٹر کا زنگ آلود اور گندا پانی نکالا، کچھ صاف پانی ڈالا اور انجن کو چند منٹ چلایا، پھر اس پانی کو بھی نکال دیا اور نیا کولینٹ شامل کر دیا۔ مختصر یہ کہ کولینٹ لیک ہو رہا ہے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں سے، لیکن بات اصل میں یہ نہیں ہے۔

Zic-Coolant

میں جس حوالے سے بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میں جس مقامی لیوب شاپ پر کولینٹ خریدنا گیا وہاں مجھے وہ نہیں ملا جس کی مجھے ضرورت تھی۔ وہاں موجود شخص نے مجھے بتایا کہ کولینٹ سردیوں کی پروڈکٹ نہیں ہیں اور ان کی ڈیمانڈ نہیں ہے اس لیے وہ اِن دنوں میں زیادہ ورائٹی نہیں رکھتے۔ اس کے مطابق وہ انہیں صرف گرمیوں میں فروخت کرتے ہیں۔ ایمانداری سے کہوں تو میرے لیے تو یہ نئی خبر تھی۔ اسے ‘اینٹی-فریز’ کہتے ہیں اور جمنے کا کام سردیوں میں ہی ہوتا ہے۔ تو اسے ٹھنڈے موسم/سردیوں میں استعمال کیوں نہ کریں۔ اور ہاں مجھے معلوم ہے کہ انہیں اینٹی-بوائل بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی گرمیوں کے لیے اہم ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ سردیوں میں انہیں خاطر میں نہیں لاتے، مجھے تو یہ بات بڑی عجیب لگی۔

لیکن میرے خیال میں کولینٹ گرمیوں کے ساتھ ساتھ سردیوں کے لیے بھی ضروری ہیں۔ کولینٹ کا ایک کام سسٹم میں موجود پانی کو جمنے سے روکنا ہے۔ اگر آپ ٹھنڈے علاقوں میں رہتے ہیں یا آپ نومبر، دسمبر، جنوری میں ہمارے خوبصورت شمالی علاقوں کی سیر کرنے کے لیے جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی گاڑی میں ایک مناسب کولینٹ ڈالنا چاہیے۔

اور یہ میں کوئی ہوائی بات نہیں کر رہا۔ ذرا اپنا ذاتی تجربہ پیش کروں۔ میں کچھ سال پہلے ایک دوسرے ملک میں رہتا تھا جہاں درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ سردیاں تھیں اور میں نے اپنی پہلی گاڑی، ٹویوٹا اسٹارلیٹ، خریدی تھی۔ میں اسے چند دن سے استعمال کر رہا تھا اور وہ بہترین چل رہی تھی۔ ایک رات درجہ حرارت صفر ڈگری سے بھی کم ہو گیا۔ اگلی صبح جب میں نے گاڑی اسٹارٹ کی تو مجھے انجن سے کچھ عجیب سی آوازیں آئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس چیز کی آوازیں تھیں۔ میں نے دو مرتبہ گاڑی کو ریس دی اور بونٹ کی سائیڈز سے کچھ دھواں نکلنا شروع ہو گیا۔ میں سمجھا کہ میں نے انجن پھونک دیا ہے۔ میں نے فوراً گاڑی بند کی، ہُڈ کھولا اور حیرت کی بات یہ کہ وہ بیلٹ جو واٹر باڈی پُلی کو چلاتا تھا گرم ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔ بیلٹ پگھل چکا تھا۔ میرے پاس اس بیلٹ کی تصویریں تو نہیں ہیں لیکن آپ اِس تصویر میں پُلی پر پگھلے ہوئے ربڑ کی باقیات دیکھ سکتے ہیں۔

IMG_20120205_120255

IMG_20120205_120307

IMG_20120205_120232a

کوئی کولینٹ (اینٹی-فریز) نہ ہونے کی وجہ سے اس سرد رات میں گاڑی کے اندر پانی جم گیا تھا۔ جب میں نے گاڑی اسٹارٹ کی تو یہ انجن کو گھما نہیں پائی اور جب میں نے دو مرتبہ ایکسلریٹ کیا تو بیلٹ زیادہ گرم ہو گئی اور جمی ہوئی واٹر باڈی پُلی پر رگڑ کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔

کولینٹ عام طور پر پروپلین گلائیکول یا ایتھلین گلائکول کے بنے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کولینٹ جو آجکل آپ مارکیٹ میں دیکھتے ہیں وہ ایتھلین گلائیکول سے بنے ہوتے ہیں۔ ایتھلین کلائیکول پانی میں ملائے جانے کے بعد بنیادی طور پر ہائیڈروجن ایٹمز کے ساتھ کام کرتا ہے۔ جب پانی جمتا ہے تو پھیلتا ہے اور انجن کے اندرونی حصوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پروپلین گلائیکول یا ایتھلین گلائیکول جیسے کیمیکلز پانی کو جمنے سے روکتے ہیں۔ اور پھر زنک کو روکنے کا فائدہ بھی ہے۔ بڑے عرصے تک پانی کا استعمال ریڈی ایٹر اور دوسرے انجن حصوں کے اندر بڑے پیمانے پر زنگ پیدا ہوتا ہے۔

اس لیے سردیاں ہوں یا گرمیاں، آپ کو اپنی گاڑی میں معیاری کولینٹ استعمال کرنا چاہیے۔ اگر سسٹم میں لیکس ہیں تو انہیں پہلے ٹھیک کروائیں۔ زِک 4-لیٹر پری-مکسڈ کولینٹ 1435 روپے کا تھا اور کیلٹیکس 1-لیٹر کنسنٹریٹ 800 روپے کا۔ میں نے انہی دو کے بارے میں پوچھا تھا۔ تھوڑے سے پیسے خرچ کریں اور آپ لمبے عرصے کے لیے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

Join WhatsApp Channel