حکومت 1700cc اور زیادہ کی گاڑیوں پر 10 فیصد FED سے دستبردار ہو جائے گی

0 176

وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل و صنعت عبد الرزاق داؤد نے اعلان کیا ہے کہ حکومت آئندہ چند ہفتوں میں 1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 10 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے حالیہ فائنانس سپلیمنٹری (دوسری ترمیم) بل 2019ء میں مقامی سطح پر تیار کردہ 1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 10 فیصد FED عائد کی تھی جس کا مقصد امیر طبقے پر ٹیکس لگانا تھا۔

اس “یو-ٹرن” کی ممکنہ وجہ

اس تازہ قدم کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، البتہ موجودہ صورت حال میں میرے ذہن میں دو ممکنہ تناظر آتے ہیں۔

پہلےمقامی آٹو مینوفیکچررز کی فروخت میں کمی اور دوسرا گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے ممکنہ خریداروں کے لیے مسائل پیدا ہونا۔

آٹومیکرز کی جانب سے تیار کی گئی متعدد سہ ماہی رپورٹوں کے مطابق ان کا منافع کم ہوا ہے اور انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے نان-فائلرز کو کسی بھی قسم کی گاڑی خریدنے کی اجازت دے کر کچھ ریلیف ضرور دیا ہے۔ نان-فائلرز کو اجازت دینے کا حکم نامہ لازمی دیکھنا چاہیے، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد نان-فائلرز کو گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی، پھر پابندی لگائی اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں اجازت دے دی۔

ایک آن لائن ڈجیٹل میڈیا پورٹل نے بھی بتایا کہ حکومت نے مقامی اسمبلرز کے سخت دباؤ کی وجہ سے 10 فیصد FED کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ مقامی کار میکرز نے اپنی گاڑیوں کی قیمتیں کیوں بڑھائیں۔ وہ قیمتیں بڑھنے کی بنیادی وجہ کے طور پر ہمیشہ روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کو پیش کرتے ہیں، جو ایک حقیقت ہے۔ لیکن کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں جیسا کہ کار کس حد تک مقامی طور پر اسمبل ہو رہی ہے اور کتنا خام مال درآمد کیا جاتا ہے کہ جو ڈالرکی قیمت میں اضافے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔

مثال کے طور پر FED لگانے کے بعد گرینڈ آلٹس 1.8 MT کی قیمت 26,89,000 روپے سے بڑھا کر 29,57,900 روپے کردی گئی۔ اسی طرح فورچیونر ڈیزل کی FED سے پہلے قیمت 68,29,000 روپے تھی جو FED لگانے کے بعد 75,11,900 روپے ہوگئی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کار مینوفیکچررز نے متعدد کار قیمتوں میں اضافے کی وجہ روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کو قرار دیا تھا۔ ایک صنعتی ماہر نے مقامی میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ہے کہ ان گاڑیوں کی قیمتیں ہر مہینے بڑھائی جا رہی ہیں اور اسے فوری طور پر روکنا چاہیے۔

انہوں نے مزید زور دیا کہ آنے والی آلٹو 660cc کا بنیادی ورژن ہی 9 لاکھ روپے کا ہو سکتا ہے – جو ممکنہ خریداروں کی قوتِ خرید کو متاثر کرے گا۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ جب حکومت کوئی پالیسی مرتب اور نافذ کرتی ہے تو اسے کچھ وقت دینا چاہیے اور اگر وہ کام نہ کرے تو بعد میں اسے معطل کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے؛ ایک روز حکومت پالیسی لاگو کرتی ہے اور اگلے دن اسے تبدیلی کر دیتی ہے، جو نہ صرف مقامی آٹو انڈسٹری بلکہ ملک کی معیشت کو بھی متاثر کرتی ہے ۔

اس سال مقامی اسمبلرز/مینوفیکچررز کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں دو بار اضافہ کیا گیا۔ مارچ 2019ء کے آغاز پر ٹویوٹا کی جانب سے نرخوں میں اضافے کے فوراً بعد ہونڈا اور سوزوکی دونوں نے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں بالترتیب 85,000 اور 1,00,000 روپے تک کا اضافہ کیا۔

نومبر 2018ء سے اب تک کار میکرز نرخوں میں غیر معمولی اضافہ کر چکے ہیں۔

یاد رکھیں کہ آئندہ مہینوں میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے، اس لیے آپ آٹو مینوفیکچررز اور اسمبلرز کی جانب سے  گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید اضافے کی توقع رکھیں۔ نومبر 2018ء میں ملک میں ڈالر 132 روپے کا تھا جبکہ اپریل 2019ء میں یہ 142 روپے کا ہے۔

حکومت کی ڈیوٹیز اور پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر سے قطع نظر جب بھی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا حتمی بوجھ گاڑیاں خریدنے والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت ڈیوٹیز کا خاتمہ کرتی ہے تو آٹومینوفیکچررز اور اسمبلرز قیمتوں پر نظرثانی نہیں کرتے۔ دیکھتے ہیں اس مرتبہ حکومت کی جانب سے 10 فیصد FED واپس لینے کا فیصلہ کرنے پر کیا ہوتا ہے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.