پڑوسی ممالک کے برعکس پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں زیادہ کیوں؟
پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں حفاظتی سہولیات، بناوٹ کے معیار غرض کہ کئی حوالوں سے دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ شعبے میں صرف تین اداروں کی اجارہ داری اور ان کی محدود گاڑیاں کسی بھی ملک میں دستیاب گاڑیوں سے کم ہیں۔ صرف یہی نہیں، ان اداروں کی جانب سے گاڑیاں کچھ اس انداز سے پیش کی جاتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل نہ ہوں۔ یوں ایک ہی مارکیٹ میں بیٹھ کر کاروبار کرنے والے تین مختلف ادارے ایک دوسرے کے مفاد کا تحفظ کر رہے ہیں۔
پاک سوزوکی نے اب تک جتنی بھی گاڑیاں پیش کیں، بشمول نئی ویگن آر کے، وہ تمام دنیا بھر میں متروک ہوچکی ہے۔ البتہ سوزوکی ویگن آر اس حوالے سے نمایاں کہی جاسکتی ہے کہ اس میں چند حفاظتی سہولیات اور دیگر خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں سال 2004ء سے پیش کی جانے والی سوِفٹ جب 2010 میں اختتام پزیر ہوئی تو اسے پاکستان میں متعارف کروادیا گیا۔ یعنی سال 2010 میں کہ جب دنیا نئی سوِفٹ دیکھ رہی تھی پاک سوزوکی پرانی سوِفٹ کی پاکستان آمد کا جشن منارہی تھی۔ کچھ یہی سلسلہ سوزوکی لیانا کے ساتھ بھی ہوا کہ جسے 2005 میں عالمی سطح پر متعارف کروایا گیا تھا اور اس کی تیاری پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں ہورہی۔ کلٹس، مہران، راوی اور بولان کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ ہونڈا بھی اب تک پانچویں جنریشن سِٹی کو طول رہا ہے جو 2013 میں چھٹی جنریشن کی آمد سے ختم ہوچکی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ان گاڑیوں کی قیمتیں بھی ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جاپان میں نئی سوزوی اگنِس متعارف؛ 12سے 15 لاکھ روپے میں دستیاب ہوگی
حفاظتی معیارات اور دیگر خصوصیات کے اعتبار سے دنیا کے دیگر ممالک میں دستیاب گاڑیوں کا پاکستان سے کوئی تقابل بنتا ہی نہیں۔ ادنی معیار اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود پاکستان میں کام کرنے والے ادارے صارفین سے بہت زیادہ قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ چلیے ترقی یافتہ مغربی ممالک سے اگر آپ پاکستان کا موازنہ درست خیال نہیں کرتے تو پڑوسی ممالک میں دستیاب گاڑیوں کی قیمتوں پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے۔ آپ یہ دیکھ کر ضرور حیران ہوجائیں گے کہ وہاں تیار ہونے والی گاڑیاں نہ صرف سستی ہیں بلکہ دورِ جدید کی بہترین سہولیات سے بھی آراستہ ہیں۔
ہونڈا سِٹی ہی کی مثال لے لیں۔ اس وقت بھارت میں ہونڈا سِٹی کی چھٹی جنریشن 7.64 لاکھ بھارتی روپے میں دستیاب ہے جو 11.72 لاکھ پاکستانی روپے کے مساوی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہونڈا سِٹی کی پرانی (پانچویں) جنریشن کی قیمت 15.23 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ بھارت میں دستیاب نئی جنریشن کی سِوک کا بہترین ماڈل 11.5 لاکھ بھارتی روپے یعنی 17.6 لاکھ پاکستانی روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ پاکستان میں سِٹی ایسپائر پراسمیٹک کی قیمت 18.5 لاکھ روپے ہے۔ نئی ہونڈا سِوک 2016ء بھی پاکستان آیا چاہتی ہے، دیکھتے ہیں اس کی قیمت کتنی رکھی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 10 اہم سہولیات جو سوزوکی بولان اور راوی میں دستیاب نہیں!
ہماری مارکیٹ میں پرانی سوِفٹ فروخت کی جارہی ہے لیکن اس کی قیمت بھارت میں دستیاب نئی سوِفٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت میں نئی ماروتی سوِفٹ کی قیمت 4.65 لاکھ بھارتی روپے یعنی 7.13 لاکھ پاکستانی روپے میں دستیاب ہے۔ پیٹرول انجن کے ساتھ اس کا بہترین ماڈل 6.24 لاکھ بھارتی روپے یعنی 9.57 لاکھ پاکستانی روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں سوِفٹ 12.21 لاکھ روپے سے 14.33 لاکھ روپے میں بیچی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ویگن آر بھی بھارت میں صرف 4.03 لاکھ سے 5.06 لاکھ بھارتی روپے میں دستیاب ہے جو پاکستانی روپے میں 6.18 لاکھ سے 7.7 لاکھ کے مساوی قیمت بنتی ہے۔ قارئین شاید جانتے ہوں کہ رواں سال پاکستان میں سوزوکی سلیریو کی آمد متوقع ہے۔ بھارت میں سلیریو کی قیمت 3.97 لاکھ بھارتی روپے (6.09 لاکھ پاکستانی روپے) سے شروع ہو کر 5.78 لاکھ بھارتی روپے (8.87 لاکھ پاکستانی روپے) تک جاتی ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں 1800 سی سی کرولا آلٹِس کا عام ماڈل 13.55 لاکھ بھارتی روپے سے شروع ہوتا ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 20.66 لاکھ روپے بنتی ہے جو پاکستان میں دستیاب آلٹِس (20.44 لاکھ روپے) سے تھوڑی زیادہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت میں دستیاب کرولا آلٹِس اگلی جانب دو حفاظتی ایئربیگز اور امبولائزر کے ساتھ پیش کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں صرف ایک ہی ایئربیگ دیا جا رہا ہے اور تو اور 23.19 لاکھ روپے میں دستیاب کرولا آلٹِس کا بہترین ماڈل میں موبلائزر بھی نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ بھارت میں عام ماڈل بھی وہ خصوصیات رکھتا ہے جو پاکستان میں تیار ہونے والی ٹویوٹا کی بہترین برانڈ میں بھی شامل نہیں ہوتیں۔
بھارت میں اگر آپ 5 لاکھ روپے (7.6 لاکھ پاکستانی روپے) میں گاڑی لینے کے لیے نکلیں تو کم و بیش 29 گاڑیوں کے 130 مختلف انداز میں سے انتخاب کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یہی کام چین میں انجام دینا چاہیں تو 55 مختلف برانڈز میں سے اپنی پسند اور بجٹ کے حساب سے گاڑی خرید سکتے ہیں۔ لیکن اگرآپ پاکستان میں ہیں (جو کہ حقیقت میں ہیں) تو آپ کے پاس سوزوکی مہران لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی آٹو پالیسی پر جاپانی اور یورپی اداروں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور چین میں اتنی اچھی صورتحال کیوں ہے؟ اس کا جواب مقابلے کا ماحول قائم کرنا ہے۔ حکومت کی جانب سے مقابلے کی فضا بنانے ہی کے ثمرات ہیں کہ آج وہاں گاڑیاں خریدنے والوں کو کم قیمت میں بہترین گاڑیاں دستیاب ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسےآج ہمارے یہاں اسمارٹ فون اور فون کالز و ایس ایم ایس کی قیمتیں کم اور معیار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مقابلہ نہ صرف اداروں کو ایک سے بڑھ کر ایک مصنوعات پیش کرنے کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ قیمتوں میں کمی کی بھی بڑی وجہ بنتا ہے۔
ہمارے ملک میں تقریباً 25 سال سے گاڑیاں تیار ہورہی ہیں۔ یہ حکومتِ وقت کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ نئی آٹو پالیسی کا اعلان کرے اور اس شعبے میں شامل ہونے والے نئے اداروں کو خوش آمدید کہے۔ حکومت کو مخصوص اداروں کی اجارہ داری کے خاتمے اور عوام کو بہتر، محفوظ اور مناسب قیمت پر گاڑیوں کی فراہی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی حلال کمائی کو خرچ کرتے ہوئے جلد بازی سے کام نہ لیں اور اطمینان سے اپنے لیے بہترین گاڑی کا انتخاب کریں۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں ہماری سڑکوں پر بھی جدید اور نئے ماڈلز کی گاڑیاں رواں دواں نظر آئیں۔