استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کمرشلائز کرنا چاہیے: درآمد کنندگان

1 203

کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP) نے مسابقت اور صارفی مسائل کے حوالے سے 12 اپریل 2018ء( بروز جمعرات) ایک کھلی سماعت منعقد کی۔ گزشتہ تحاریر میں ہم نے تفصیلاً آگاہ کیا تھا کہ کس طرح گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں نے سماعت کے دوران صارفین، PakWheels.com اور دیگر متعلقہ حکام کے سوالوں کے جوابات دیے۔ اس تحریر میں ہم بتائیں گے کہ استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں نے CCP کو کیا بتایا۔

اجلاس میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں کے کئی نمائندے موجود تھے۔ تقریباً تمام نے ہی حکومت کی جانب سے راتوں رات SROs جاری کرنے پر خدشات کا اظہار کیا جیسا کہ SRO 1067(1)/2017، جس نے کاروبار کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن واضح رہے کہ حکومت پہلے ہی SRO 1067 کو منسوخ قرار دے چکی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں کے نمائندگان نے کہا کہ حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہیے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کمرشلائز کرنا چاہیے، تاکہ وہ گاڑی کو زیادہ آسانی کے ساتھ درآمد کر سکیں کیونکہ اس وقت انہیں گاڑیاں بیگیج، تحفے اور رہائش کی منتقلی جیسی اسکیموں کے تحت گاڑی درآمد کرنا پڑتی ہے، جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بنائی گئیں۔ درآمد کنندگان نے کہا کہ اگر حکومت پاکستان استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کمرشلائز کرتی ہے تو ہم صارفین کو سوزوکی مہران جتنی سستی لیکن مزید خصوصیات کی حامل گاڑیاں دے سکتے ہیں۔

کئی درآمد کنندگان نے گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ملک میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سخت قوانین بنائے؛ البتہ سی ای او انڈس موٹرز علی اصغر جمالی نے اس سے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں کا یہ گمان بالکل غلط ہے۔

سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ تیل کے شعبے کے بعد استعمال شدہ گاڑیوں کا شعبہ ملک کے GDP میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا دوسرا بڑا شعبہ ہے۔ 2017ء میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد نے GDP میں 63 ارب روپے کا حصہ ڈالا۔

استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والے ایک شریک نے کہا کہ وہ نہ صرف قومی معیشت میں اربوں روپے کا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں سے کئی زیادہ خصوصیات رکھنے گاڑیاں بھی صارفین تک پہنچا رہے ہیں؛ اسی طرح وہ رسد اور طلب کے درمیان موجود خلاء بھیج پر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت کاروں کی موجودہ ضرورت پانچ لاکھ ہے، لیکن گاڑیاں بنانے والے مقامی ادارے اس کی صرف آدھی طلب ہی پوری کر پاتے ہیں، اس لیے اس خلاء کو کم کرنے کے لیے کچھ اور طریقے ہونے چاہئیں، انہوں نے مزید کہا۔

2017ء میں 80 ہزار گاڑیاں درآمد کی گئیں اور اگر حکومت ہماری مدد کرے تو ہم رسد و طلب کا یہ خلاء مکمل طور پر پر کر سکتے ہیں، درآمد کنندگان نے CCP سے کہا۔

جناب عامر اللہ والا اور جاوید شیخ نے PAAPAM کی نمائندگی کی اور کھلی سماعت میں پرزہ جات بنانے والوں کے مسائل پیش کیے۔ جناب اللہ والا نے اجلاس میں کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کمرشلائز کرنا ملک میں گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

جناب سنیل سرفراز منج چیئرمین PakWheels.com بھی اس موقع پر موجود تھے؛ انہوں نے خیال پیش کیا کہ حکومت کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے جو صنعت کے صرف ایک حصے کو نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچائے۔ گاڑیاں بنانے والے اور درآمد کنندگان صنعت کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے زور دیا۔

ہماری طرف سے صرف اتنا ہی، اپنی رائے نیچے تبصروں میں ضرور پیش کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.