ٹویوٹا انڈس موٹرز نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیا

1 165

لیجیے جناب! حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد اور خام مال پر عائد ٹیکس میں اضافے کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہوچکے ہیں۔ یکم دسمبر 2015 کو پیش کیے گئے ‘منی بجٹ‘ کے ذریعے مختلف اشیاء پر ٹیکس کو بڑھایا گیا تھا جن میں گاڑیوں کے پرزہ جات پر 33.5 فیصد اور دیگر اشیاء خورد و نوش پر 21 فیصد تک اضافہ بھی شامل ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حکم نامے سے ہونے والا یہ اضافہ فی الفور نافذ العمل ہوگا اور اس سے مالی سال 2015-16 کی پہلی سہہ ماہی میں ہونے والے خسارے کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

اس اضافے کے بعد انڈس موٹرز نے ٹویوٹا کرولا کی قیمت میں 15 تا 30 ہزار روپے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی اوینزا، لینڈ کروزر، کیمری و دیگر گاڑیوں کی قیمتوں میں تبدیلی سے متعلق ابھی آگاہ نہیں کیا گیا۔ ٹویوٹا کرولا کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد 1300 سی سی GLi کی قیمت 1,747,000 روپے سے بڑھ کر 1,764,000 روپے ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ کرولا کی دیگر مختلف انداز کی قیمتیں یہاں ملاحظہ کریں۔

یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ گاڑیوں کے شعبے میں دو عام اصطلاحات CBUاور CKD کا بنیادی فرق کیا ہے۔ CBU دراصل Completely Built Unit کا مخفف ہے جس کے معنی مکمل تیار شدہ گاڑی ہے۔ پاکستان میں بہت سی گاڑیاں، مثلاً ٹویوٹا کیمری اور لینڈ کروزر، بیرون ملک سے بالکل تیار حالت میں درآمد کی جاتی ہیں لہٰذا انہیں CBU کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ دوسری اصطلاح CKD ہے جو Complete Knock-Down Kit کا مخفف ہے۔ اس زمرے میں وہ گاڑیاں شامل ہیں جن کے تمام پرزہ جات بیرون ممالک سے پاکستان منگوائے جاتے ہیں اور پھر انہیں جوڑ کر مکمل گاڑی تیار کی جاتی ہے۔ ٹویوٹا کرولا CKD کی اچھی مثال ہے۔

انڈس موٹرز کے نمائندے نے انگریزی اخبار دی نیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دو سالوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ اور گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوچکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اپریل 2009 میں ایلومینیم کی قیمت 1420 ڈالر فی ٹن تھی جو اب 2 ہزار ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ جا پہنچی ہے، اسی طرح تانبے (Copper) کی قیمت اپریل 2009 میں 4405 ڈالر فی ٹن تھی وہ آج تقریباً 7 ہزار ڈالر فی ٹن ہوچکی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے اب تک گاڑیوں کے شعبے سے متعلق آٹو پالیسی پیش نہیں کی گئی۔ مرے پر سو درے کے مصداق ‘منی بجٹ’ کے ذریعے ڈیوٹی میں اضافے سے نہ صرف درآمد شدہ گاڑیوں بلکہ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں ی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ آٹو پالیسی میں تاخیر سے وہ ادارے بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں جنہوں نے چند ہفتوں قبل پاکستان میں گاڑیاں متعارف کروانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔

پاکستان میں گاڑیوں کا شعبے بہت زیادہ وسیع نہیں ہے لیکن ترقی کی جانب گامزن ضرور ہے۔ لیکن اس شعبے کی ترقی کا بہت زیادہ انحصار ملک کی مجموعی معاشی صورتحال پر ہے۔ صارفین کو گاڑیوں کے زیادہ انتخاب کا موقع صرف اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے کہ یا تو آپ اپنی گاڑیاں تخلیق کریں یا پھر طویل المعیاد منصوبہ بندی کی حامل آٹو پالیسی پیش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ادارے پاکستان میں گاڑیاں متعارف کروائیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.