چاندی کا ورق، مائیکرویو اور ریفریجریٹر گاڑی چوری ہونے سے بچا سکتے ہیں

1 420

بہت سے لوگ اپنی گاڑی کی حفاظت اور اسے غلط ہاتھوں سے بچانے کے لیے ‘کی فوبز’ (key fobs) استعمال کرتے ہیں۔ یہ تکنیک دراصل چابی کے ساتھ موجود ریوٹ نما میں ایک کمپیوٹرائزڈ چپ منسلک کردیتا ہے۔ گاڑی ریموٹ سے کھولنے کی کوشش کی جائے تو یہ گاڑی میں لگے حفاظتی نظام کو نقشہ بھیجتا ہے۔ اگر چابی کا بھیجا گیا نقشہ گاڑی کے نظام سے موافق ہوجائے تو گاڑی باآسانی کھل جاتی ہے۔ دیکھنے میں تو یہ طریقہ بہت جدید اور ناقابل تسخیر لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

وقت کے ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی لیکن چوروں کی تعداد میں کمی نہیں آئی۔ چوروں نے گاڑی ہتھیانے کے نئے طریقے اختیار کرلیے ہیں۔ مقامی مارکیٹ میں تو ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو حفاظتی نظام پیش کیے جانے سے قبل اس کا توڑ نکالنے کا دعوی کرتے ہیں۔ ایسے میں بہتر سے بہتر نظام بھی مشکوک ہوجاتا ہے اور کی فوبز بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ کی گاڑی ‘الارم سسٹم’ کے ساتھ محفوظ ہے؟

حال ہی میں مجھے معروف ٹیکنالوجی بلاگر کِم کمانڈو کا دلچسپ بلاگ پڑھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کی فوبز ٹیکنالوجی کی خامیوں اور اس سے ممکنہ نقصان سے بچنے پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ بلاگر لکھتے ہیں کہ مذکورہ نظام کی سب سے بڑی خرابی چابی اور گاڑی کے درمیان مسلسل رابطہ ہے جو ایک مخصوص اور خفیہ فریکوئنسی پر قائم رہتا ہے۔ رابطے کو مسلسل قائم رکھنے کی وجہ گاڑی کے صارف کو سہولت کی فراہمی ہے لیکن بدنیت افراد چند آلات کی مدد سے نہ صرف اس فریکوئنسی کا پتہ لگا سکتے ہیں بلکہ وہ نقشہ بھی حاصل کرسکتے ہیں جس کی مدد سے گاڑی کھولی جا سکے۔ کی فوبز نظام کی اس کمزوری پر چند کار ساز اداروں نے فریکوئنسی کی حد کم کردی اور اب گاڑی صرف اسی وقت کھولی جاسکتی ہے جب چابی اس کے نزدیک ہو۔ لیکن اس کے باوجود فریکوئنسی میں مداخلت کا امکان پھر بھی باقی رہتا ہے۔

خوش قسمتی سے اس مسئلہ کا ایک آسان حل چاندی کے ورق سے بنا ڈبہ ہے جو گاڑی کے ریموٹ کی فریکوئنسی چوری ہونے سے بچا سکتا ہے۔ یہ ڈبہ مارکیٹ میں انتہائی کم قیمت میں مل جاتا ہے اور اگر آپ خود بنانا چاہیں تو اسے گھر بیٹھے بھی بنا سکتے ہیں۔ اس ڈبے کے چاروں طرف موجود چاندی کے ورق میں چابی رکھنے سے اس کا گاڑی کے نظام سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے یوں خفیہ فریکوئنسی کو جاننے یا اس میں دخل اندازی کرنے کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔

2b2c

دوسرا طریقہ تھوڑا مضحکہ خیز ہے لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ مائیکرویو اور ریفریجریٹر میں گاڑی کی چابی رکھنا بھی کی فوبز نظام کو محفوظ بناتا ہے۔ یہ تھوڑا خطرناک طریقہ بھی ہے اور وہ اس صورت میں کہ اگر کسی نے رات کھانا گرم کرنے کے لیے مائیکرویو استعمال کر لیا تو پھر۔۔۔۔ نتیجہ آپ بخوبی جانتے ہی ہیں۔

سچ پوچھئے تو میرے خیال میں پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں محض حفاظتی نظام پر بھروسہ کر کے گاڑی کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں ٹویوٹا کرولا X جتنی عوام میں مقبول ہے اتنی ہی کار چوروں کو بھی مطلوب ہے۔ چونکہ یہ زیادہ تر جاپان سے آتی ہیں اور ان میں ادارے کا حفاظتی نظام بھی لگا ہوتا ہے تو خریدار عموماً مطمئن ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بدنیت افراد باآسانی چوری کرلیتے ہیں۔ ان چوروں کے پاس ایسی چابی ہوتی ہے جو ای سی یو () باآسانی کی مدد سے کرولا X میں لگائی جاسکتی ہے۔ یوں صرف تھوڑی سی چالاکی اور چند منٹ کی محنت سے وہ آپ کی گاڑی لے کر اڑن چھو ہوسکتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.