نئے ماڈل کی رونمائی کے ساتھ پاکستان کے آٹو سیکٹر میں مقابلہ سخت

0 202

اپریل کا مہینہ مختلف نئے ماڈل لایا ہے، جن کی رونمائی پاکستانی آٹوموٹو مارکیٹ میں آنے والے نئے اداروں نے کی ہے۔ پاکستان کی زوال پذیر معیشت کے باوجود نئے آنے والے اداروں کا ماننا ہے کہ گاڑیوں کی طلب مستقبلِ قریب میں بڑھے گی۔ گاڑیوں کی ملکیت کے موجودہ تناسب فی 1000 افراد 18 ہونے کے ساتھ پاکستان کا آٹوموبائل سیکٹر اب بھی ترقی پذیر مرحلے میں ہے اور اس لیے ایک روشن مستقبل رکھتا ہے – حالیہ پاکستان آٹو پارٹس شو (PAPS) 2019ء اس کی ایک روشن مثال تھا۔ 3 روزہ ایونٹ آٹوموبائل سیکٹر کے لیے بڑا ثابت ہوا کہ جس میں پاکستان کے موجودہ اور نئے آٹو مینوفیکچررز کی جانب سے متعدد گاڑیوں کی نمائش کی گئی۔ 

پاک سوزوکی کی ‘سب سے بڑی رونمائی’ یا ایک اور پرانا چہرہ؟ 

آئیے آغاز کریں پاک سوزوکی کی اس نئی 660cc کی آلٹو کے ساتھ کہ جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ کچھ ماہ پہلے ہی کمپنی نے اپنی دہائیوں پرانی مقبولِ عام مہران کے مزید آرڈرز لینا بند کردیے۔ آٹو میکر نے بالآخر مقامی مارکیٹ میں ایک متبادل لانے کے لیے اپنے منصوبوں کے ساتھ اس کی پیداوار کا خاتمہ کردیا۔ 12 اپریل کو پاک سوزوکی نے PAPS 2019 کے پہلے دن پر آلٹو کی آٹھویں جنریشن متعارف کروائی۔ یہ متوقع تھا کہ کمپنی کی جانب سے سال 2019ء “سب سے بڑی رونمائی” یہی ہوگی۔ البتہ تمام افراد متاثر نہیں ہوئے۔ ہیچ بیک کو “دوسری مہران” سمجھا جا گیا ہے کیونکہ آلٹو کا بنیادی ماڈل ویسا ہی ہے جیسا صارفین کو مہران میں پیش کیا جاتا تھا ۔ واحد فرق زیادہ قیمت کی صورت میں ہے یعنی عوام کو اور زیادہ نقصان ہوگا۔ پھر بھی آلٹو بڑے فرق سے مہران کی فروخت کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے، جیسا کہ کمپنی عہدیدار نے بتایا۔ کمپنی دعویٰ کرتی ہے کہ آلٹو کے 400 پرزوں میں سے 57 فیصد ملک میں تیار کیے جا رہے ہیں۔

کِیا لکی موٹرز سے کامیابی کی توقعات 

حال ہی میں بننے والے جوائنٹ وینچر کِیا لکی موٹرز بھی PAPS 2019 میں موجود تھا کہ جہاں اس نے 5 گاڑیوں کی نمائش کی۔ ان میں صرف دو کی رواں سال ملک میں آمد متوقع ہے۔ کِیا اپنی SUV اسپورٹیج اور ہیچ بیک پکانٹو بالترتیب اگست اور اکتوبر میں پاکستان میں لا رہا ہے۔ ایونٹ کے آغاز پر آلٹو کے بجائے پکانٹو نے مہمانوں کی سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ ممکنہ خریداروں کو جنوبی کوریائی آٹو برانڈ سے بڑی توقعات ہیں کہ وہ ایسی گاڑیاں فراہم کرے گا جو ان کی محنت کی کمائی کے لائق ہوں گی۔ کِیا کے CEO آصف رضوی نے کہا کہ کمپنی پیداوار میں ایک خاص اضافے کی سطح تک پہنچنے کے بعد لوکلائزیشن کی جانب منتقل ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں کو مناسب رکھنے کے لیے لوکلائزیشن کی زیادہ سطح بہت ضروری ہے کیونکہ پرزوں کی تیاری کے لیے خام مال کی بڑی مقدار باہر سے درآمد کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ 

چنگن PAPS 2019 میں 

چنگن ایک چینی آٹومینوفیکچرر ہے جو ماسٹر موٹرز کے تعاون سے پاکستان میں اپنے آپریشنز کا آغاز کر چکا ہے۔ کمپنی نے PAPS 2019 میں شرکت کی کہ جہاں اس نے اپنی 1000cc کاروان اور اتنی ہی طاقت رکھنے والی M9 متعارف کروائی۔ ان دو کے علاوہ آٹو میکر نے اپنی 7 نشستوں کی CX70 بھی پیش کی جو 1500cc انجن کی طاقت رکھتی ہے اور 2019ء کے آخر تک پیش کی جائے گی۔ 1500cc انجن کے ساتھ چنگن A800 بھی ایونٹ میں نمائش کے لیے موجود تھی جو اگلے سال مارکیٹ میں آئے گی۔ جوائنٹ وینچر نے اس بڑے ایونٹ میں ہیوی کمرشل ٹرک فوٹون EST 410 اور ایویکو بھی متعارف کروائے۔ 

چیئرمین PAAPAM مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ 

پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کے باوجود حالیہ چند سالوں میں اس نے نمایاں ترقی ظاہر کی ہے۔ آٹو سیکٹر کا ترقیاتی مرحلہ بڑی تعداد میں ہنر مند اور بے ہنر افراد کی بڑی تعداد کو ملازمتیں فراہم کرنے کا عہد بھی کرتا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹِو ارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) اشرف شیخ نے کہا کہ مقامی منظرنامے پر موجود آٹوموٹو ادارے زبردست مسابقت پیدا کریں گے، جس سے صارفین کو فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ معیار بہتر ہوگا، تنوّع پیدا ہوگا اور کسی حد تک گاڑیوں کو قیمتوں کا استحکام بھی یقینی بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی سیکٹر میں موجود تمام آٹو مینوفیکچررز، نئے اور پرانے سب آٹو پارٹس کی زیادہ سے زیادہ لوکلائزیشن پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ وقت کی آواز بھی ہے کیونکہ دسمبر 2017ء سے اب تک امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 34 فیصد کمی آ چکی ہے، جو غیر معمولی ہے۔ پارٹس کی مقامی سطح پر تیاری معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔ 

سابق چیئرمین PAAPAM شارق سہیل نے بتایا کہ مقامی صنعت میں داخل ہونے والے نئے ادارے طویل میعاد تک مارکیٹ میں رہنے کے لیے ہی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ البتہ انہیں بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اسمارٹ حکمت عملیاں مرتب کرنا ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپان سے گاڑیوں کی درآمد میں کمی سے گاڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوگا۔ 

کیا حکومت ‘آٹو سیکٹر’ کے جہاز کو رواں رکھ پائے گی؟ 

دوسری جانب حکومت نے آٹوموٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-2021ء‎ کے مطابق مقامی صنعت کے نئے اداروں کو متعدد رعایتیں پیش کی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نے ملک میں نئے آٹو مینوفیکچررز کے لیے دروازے کھول دیے۔ اس نے گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے کہ جو سالانہ تقریباً 70,000 گاڑیوں تک پہنچ چکی تھی۔ PAAPAM کے سابق چیئرمین کے مطابق یہ نئے آنے والے اداروں کے لیے بڑی کامیابی شمار ہوگی اگر وہ کسی طرح ایک سال میں 35,000 سے 40,000 گاڑیاں فروخت کرنے میں ہی کامیاب ہو جائیں۔ البتہ حکومت کو آٹوموبائل انڈسٹری کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تسلسل لانے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ وہ بارہا اپنے فیصلوں کو واپس لے۔ تبھی آٹو انڈسٹری حقیقی معنوں میں پنپ سکتی ہے۔ 

صارف کے تناظر سے 

پاک ویلز صارفین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور جدوجہد کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا آیا ہے۔ حالیہ پیشرفت کس طرح ممکنہ خریداروں کو متاثر کریں گی؟ نئے اداروں کی آمد بلاشبہ مقامی صنعت میں ایک مثبت پیشرفت ہے۔ مقابلے کی فضاء بڑھے گی اور بالآخر صارفین کو بہتر معیار کی مصنوعات، اپنے پیسے کا صحیح نعم البدل اور بغیر کسی تاخیر کے گاڑیوں کی بروقت فراہمی حاصل ہوگی۔ آخر کار کسی بھی آٹو مینوفیکچرر کی بقاء صرف مصنوعات کے معیار، مؤثر سروس اور صارفین کے اعتماد پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ البتہ حکومت کو اس شرح کو ریگولرائز کرنے کی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ جس پر آٹو مینوفیکچرر کرنسی کی قدر گھٹنے پر اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا سکتے ہیں، جو اس وقت ابتر حالت میں ہے۔ 

ہماری طرف سے اتنا ہی۔ پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خیالات نیچے پیش کیجیے۔ آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.