بینک آٹو فائنانسنگ پر زیادہ شرحِ سود کیوں لے رہے ہیں؟

0 406

اس میں اب کوئی شبہ باقی نہیں بچہ کہ پاکستان میں روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والی صنعتوں میں سے ایک آٹوموبائل انڈسٹری ہے۔ امریکی ڈالر اور روپے کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم توازن کی وجہ سے وفاقی حکومت نے شرحِ سود کو بڑھایا – یعنی قرضے کی وہ شرح جو قرض لینے والا سود کی صورت میں ادا کرتا ہے۔

پاکستان میں گاڑیاں خریدنے والے مختلف پس منظر کے حامل خاندان اور افراد بینکوں سے قسطوں پر گاڑی لیتے ہیں، جسے آٹو فائنانسنگ یا کار فائنانسنگ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کو مکمل نقد ادائیگی کے بجائے قسطوں کی بنیاد پر کسی اپنی مرضی کے انتخاب سے گاڑی خریدنے کی اجازت دیتا ہے۔ گزشتہ 14 ماہ میں شرحِ سود بدستور بلند رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں لوگوں کو اپنی پسندیدہ گاڑیاں خریدنے کے لیے اب زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جس نے کراچی کےا یک آٹو ڈیلر کا حوالہ دیا کہ آٹو فائنانسنگ جو پہلے 30 سے 35 فیصد تھی اب 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

آٹو فائنانسنگ کے لیے آپ کو کتنی ادائیگی کرنا پڑے گی اس کےلیے پاک ویلز کار لون کیلکولیٹر دیکھیں۔

آٹو فائنانسنگ میں زوال کی دو اہم وجوہات ہیں۔ جن میں سے پہلی یہ ہے کہ بینکوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی ہدایت پر شرحِ سود 11 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کردی ہے۔

مثال کے طور پر سوزوکی کلٹس VXR اس وقت 14.4 لاکھ روپے کی ہے۔ 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ اور پانچ سال کی اقساط کے ساتھ کچھ یوں ہوگا:

ماہانہ قسط: 25،531 روپے

ابتدائی ڈپازٹ: 4،99،980 روپے

پروسیسنگ فیس: 7،960 روپے

دوسری وجہ یہ کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں، انجن گنجائش کی بنیاد پر، تقریباً 10 سے 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ 2018ء کے آغاز پر SBP نے شرحِ سود کو 6 فیصد سے بڑھا کر 10.75 فیصد کردیا تھا۔ شرحِ سود میں اضافہ بینکوں کو آٹو فائنانسنگ کی لاگت بڑھانے پر مجبور کر رہا ہے۔

FED ہاں یا ناں؟

لوگوں کو اب بھی یقین نہیں کہ حکومت 1700cc اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) ہٹا رہی ہے یا نہیں حالانکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل و صنعت عبد الرزاق داؤد اس کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس کا بھی کار اور آٹو فائنانسنگ کی مجموعی قیمت پر اثر ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے امیروں پر ٹیکس لگانے کے لیے حالیہ فائنانس سپلیمنٹری (دوسری ترمیم) بل 2019ء میں مقامی طور پر تیار کردہ 1700cc اور اس سے زیادہ انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 10 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) لاگو کی تھی۔

1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن کی حامل گاڑیوں پر FED کا اطلاق 11 مارچ کو ہوا۔ اس قدم سے ہونڈا اٹلس اور ٹویوٹا IMC کی گاڑیوں کی فروخت کم ہوئی۔ معلوم ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ہونڈا سوِک ہونڈا کی کل فروخت کے 30 فیصد پر مشتمل ہے اور اس گاڑی پر FED کے اطلاق نے کمپنی کو ایک زبردست دھچکا پہنچایا۔

گاڑیوں کی قیمتیں روپے کی قدر میں کمی اور دیگر ٹیکسوں کی وجہ سے جنوری 2018ء سے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر FED کے اطلاق کے بعد گرینڈ آلٹس 1.8 MT کی قیمت 26،89،000 روپے سے بڑھ کر 29،57،900 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح فورچیونر ڈیزل کی FED سے پہلے قیمت 68،29،000 روپے تھی جو FED کے اطلاق کے بعد 75،11،900 روپے ہو چکی ہے۔

ماضی میں نان-فائلرز پر پابندی

سوزوکی کے معمالے میں سب سے بڑا مسئلہ نان-فائلرز پر مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی ہے۔ پاک سوزوکی کے ترجمان شفیق احمد شیخ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ آٹو فائناننگ جولائی 2018ء سے فروری 2019ء کے درمیان 25 فیصد سے گھٹتی ہوئی 16 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اہم وجہ یہ کہ آٹو فائنانسنگ پاک سوزوکی کی کل فروخت کا 25 فیصد ہوتی ہے۔ نان-فائلرز پر پابندی کی وجہ سے پاک سوزوکی کو خسارے کا سامنا ہے۔ البتہ حکومت کی جانب سے اس پابندی کے خاتمے کے بعد کمپنی کی آٹو فائنانسنگ 28 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

عوام سوزوکی کی 1000cc سے چھوٹی گاڑیوں کو پسندکرتے ہیں کیونکہ ٹویوٹا اور ہونڈا کی 1000cc سے زیادہ کی گاڑیوں کے مقابلے میں ان کی اقساط چھوٹی ہوتی ہیں۔

اس حوالے سے اور ملکی و غیر ملکی دیگر خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.