نئی آٹو پالیسی پر بگ تھری ناراض؛ سوزوکی اور ٹویوٹا کے حصص بھی متاثر

1 234

پاکستان میں کام کرنے والے کار ساز اداروں بالخصوص پاک سوزوکی نے نئی آٹو پالیسی 2016-2021 پر اظہار افسوس کیا ہے تاہم خواجہ آصف ان کے اعتراضات کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کہا کہ تینوں جاپانی کار ساز اداروں نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں مارکیٹ کے اندر اجارہ داری قائم کرکے بھرپور فوائد سمیٹے جس سے نئے کار ساز اداروں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی آٹو پالیسی کا مقصد صارفین کو تحفظ فراہم کرنا اور انہیں صاحب اختیار بنانا ہے۔

پاک سوزوکی کے ترجمان نے نئی آٹو پالیسی کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف حکومتِ وقت نئے کار ساز اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی رہے لیکن دوسری طرف ان اداروں کو مراعات نہیں دی جارہیں جنہوں نے اربوں کا سرمایہ پہلے ہی لگایا ہوا ہے۔

اس کے جواب دیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے کہا ہے کہ موجودہ کار ساز ادارے گزشتہ کئی دہائیوں سے مراعات اور اجارہ داری سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب حکومت کو بھی عوامی توقعات کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا ہے تبھی وہ گاڑیوں کے شعبے میں اصلاحات پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر متعلقہ ادارے پاکستان کی آٹو پالیسی کے لیے ناگزیر 7 نکات پر غور کریں جنہیں یہاں کئی ماہ قبل لکھا گیا تھا۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران پاک سوزوکی نے نہ صرف گاڑیوں کی فروخت میں کئی ریکارڈ قائم کیئے بلکہ ان کے منافع اور حصص میں بھی زبردست اضافہ دیکھا گیا۔ اس کے باوجود گاڑیوں کے معیار میں بہتری، صارفین کے لیے حفاظتی سہولیات کی فراہمی اورمقامی سطح پر مکمل گاڑی کی تیاری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ شاید بہت سے قارئین جانتے نہ ہوں کہ سوزوکی مہران (Suzuki Mehran) کی اگلی نشستوں پر ڈرائیور کے لیے سیٹ بیلٹس تک نہیں دی جاتیں۔ اس کے علاوہ 2 دہائیوں سے گاڑیاں تیار کرنے کے باوجود اس کے بہت سے پرزے بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم آئندہ پانچ سالوں کے لیے پیش کی گئی نئی آٹو پالیسی پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
1) گاڑیاں تیار کرنے کے لیے درکار مشینری کی بغیر ڈیوٹی درآمد
2) 100 مکمل تیار شدہ گاڑیوں (completely built units) کی 50 فیصد ڈیوٹی پر درآمد
3) بیرون ممالک سے تیار شدہ پرزے درآمد کرنے پر 10 فیصد ڈیوٹی (جو اس وقت 32.5 فیصد مقرر ہے)
4) مقامی تیار شدہ پرزوں پر 25 فیصد ڈیوٹی ( جو اس وقت 50 فیصد مقرر ہے)

نئے کار ساز اداروں کے علاوہ نئی آٹو پالیسی میں ان کمپنیوں کے لیے بھی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے جو پہلے پاکستان میں اپنی گاڑیاں پیش کرتی رہی ہیں تاہم اب یہ سلسلہ ختم کا موقوف ہوچکا ہے۔ ان میں ہیونڈائی اور کِیا موٹرز جیسے ادارے شامل ہیں جن کے کارخانے پہلے ہی سے پاکستان میں قائم ہیں۔ البتہ ان اداروں کو دی گئی رعایتوں کی معیاد پانچ سال کے بجائے تین سال رکھی گئی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں بند کارخانے رکھنے والوں کو مراعات حاصل ہیں تو پھر ان اداروں بشمول سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا کا کیا قصور جن کے کارخانے نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ وہ دیگر اداروں کی طرح پاکستان سے رخصت بھی نہ ہوئے۔ اس کی چند وجوہات یہ ہیں:
1) یہ ادارے پاکستانی مارکیٹ سے انسیت رکھتے ہیں
2) یہ کمپنیاں گاڑیوں کے شعبے سے بخوبی واقف ہیں
3) ان کی گاڑیوں کے پرزے تیار کرنے والے موجود ہیں
4) ان کے پاس کام کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے
5) ان اداروں کے ملک بھر میں متعدد دفاتر بھی ہیں
6) ان کے پاس گاڑیاں فروخت کرنے کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے
7) ان کے پاس بعد از فروخت خدمات فراہم کرنے کی سہولت بھی ہے

اس کے علاوہ تینوں ہی ادارے طویل عرصے سے پاکستان میں موجود ہیں لیکن معیارات کے اعتبار سے اب بھی ان کی گاڑیاں دہائیوں پرانی معلوم ہوتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں نہ جدید ٹیکنالوجی شامل کی گئی اور نہ ہی حفاظتی سہولیات مثلاً اے بی ایس اور ایئربیگز جیسی عام خصوصیات بھی موجود نہیں ہے۔ اسی کا حوالہ دیتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہاکہ پاکستان میں کام کرنے والے اداروں کی گاڑیاں بین الاقوامی معیار پر پرا نہیں اترتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نئی آٹو پالیسی کے ذریعے مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی تعداد میں 2021 تک 200 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

Suzuki-Swift

پاک سوزوکی نے آٹو پالیسی برائے 2016 تا 2012 پر جس طرح کا ردعمل دیا وہ خلاف توقع نہیں تھا۔ ہمارے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ پاک سوزوکی میں نئی سوِفٹ (Suzuki Swift) کی اشتہاری مہم سے متعلق کام جاری تھا لیکن نئی آٹو پالیسی کے بعد اسے مؤخر کیے جانے کی توقع ہے۔ اس معاملے پر ہم نے مزید تحقیق کی اور پتہ لگایا کہ آیا سوزوکی سوفٹ کا نیا انداز (فیس لفٹ) پیش کیا جانے والا ہے؟ لیکن ہمیں یہ جان کر شدید رنج ہوا کہ یہ اشتہاری مہم اس وقت دستیاب سوزوکی سوفٹ ہی تھی۔ یاد رہے کہ عالمی مارکیٹ میں نئی سوزوکی سوفٹ آیا چاہتی ہے اور اس نئی سوزوکی سوفٹ کی چند تصاویر منظر عام پر بھی آچکی ہیں۔

نئی آٹو پالیسی کی منظوری چند روز قبل ہی کی گئی ہے تاہم ان گنے چنے دنوں میں ہی گاڑیوں کے شعبے میں بگ تھری کی اجارہ داری ختم ہونے کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ نئے کار ساز اداروں کی آمد اور گاڑیوں کی تیاری کا مرحلہ شروع کرنے میں کم و بیش ایک سے دو سال کا عرصہ لگے گا لیکن اس کے باوجود گندھارا نسان، دیوان موٹرز اور ایٹلس ہونڈا کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف ٹویوٹا انڈس موٹرز کے حصص میں 0.34 فیصد اور پاک سوزوکی کے حصص کی فروخت میں 1.94 فیصد کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے۔

پاکستانی عوام کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کا معیار ناقابل قبول حد تک گرا ہوا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ نئے کار ساز اداروں کی آمد کے بعد پاکستانی صارفین جاپان سے درآمد شدہ گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں یا مقامی سطح پر تیار و فروخت ہونے والی گاڑیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔

شاید یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان ملک ہی میں گاڑیوں کی مکمل تیاری کی طرف قدم بڑھائے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو بلکہ صارفین کی خواہشات کو بھی پُر کرسکے۔ اس طرز کی گاڑی تیار کرتے ہوئے صرف پاکستانی مارکیٹ نہیں بلکہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی گاڑیوں کی مارکیٹ کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.