گاڑیوں کی غیر قانونی درآمد؛ حکومت نے قوانین سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا
گاڑیوں کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی مراعات کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے حکومت نے بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیاں منگوانے کے طریقہ کار کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً 30 ہزار استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان درآمد کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد جاپان میں تیار شدہ گاڑیوں کی ہے۔
معروف انگریزی روزنامے بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک میں تین سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کے باوجود انہیں مختلف طریقوں سے پاکستان منگوایا جاتا رہا ہے۔ کمرشل گاڑیوں کی درآمد سے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (FBR) کو قابل ذکر فوائد حاصل ہوتے ہیں لہٰذا ان کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہے گی۔ البتہ تارکین وطن کو دی جانے والی مراعات کے ناجائز استعمال کو دیکھتے ہوئے وزارت صنعت و پیداوار نے تجویز دی ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں پر عائد درآمدی ڈیوٹی مختص کردی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کی درآمدات میں اضافے سے حکومت کو 12 ارب روپے کا خسارہ
دوسری طرف حکومت کی جانب سے منظور شدہ آٹو پالیسی برائے سال 2016-2021 کی تیاری و منظوری میں بھی مقامی اداروں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یاد رہے کہ نئی آٹو پالیسی آئندہ ماہ یکم جولائی سے ملک بھر گاڑیوں کے شعبے سے منسلک اداروں پر لاگو ہوگی۔ نئی پالیسی کے تحت وزارت تجارت کو ایسا معیاری و قابل عمل طریقہ کار (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) تیار کرنا ہے جس کے ذریعے گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی مراعات سے ناجائز فائدہ کا حصول ممکن نہ ہو۔
اس وقت بینک دولت پاکستان (SBP)کی تیار کردہ امپورٹ پالیسی آرڈر 2013 (اپنڈکس E) کے تحت پاکستانی تارکین وطن ذاتی سامان، بطور تحفہ یا پھر رہائش کی منتقلی کی صورت میں استعمال شدہ گاڑی بھی اپنے ہمراہ پاکستان لا سکتے ہیں۔ یہ طریقہ کار بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ تاہم گاڑیاں درآمد کرنے کے کاروبار سے وابستہ افراد نے اس سے ناجائز فوائد سمیٹنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاسپورٹ استعمال کرنا شروع کرنے لگے ہیں۔ علاوہ ازیں ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے رقم کی بیرون ملک منتقلی کے غیر قانونی طریقہ استعمال سے بھی ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔