کیا یونائیٹڈ براوو ایک اور سوزوکی مہران بن رہی ہے؟

0 510

پاکستان کی آٹوموٹو صنعت نے گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی اتنی تیزی سے ترقی نہیں پائی جتنی کہ گزشتہ دو سال میں اس شعبے میں ہوئی ہے۔ پاکستانی صارفین گاڑیاں بنانے والے مزید اداروں کی آمد اور موجودہ اداروں کی جانب سے زیادہ ماڈلز جاری کیے جانے کی وجہ سے آگے بڑھتا ہوا ماحول دیکھ رہے ہیں۔ آٹوموبائل صنعت زبردست صلاحیت رکھتی ہے اور اور یہ مختلف فریقین نکی جانب سے کئی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے آشکار ہے۔ یہ سب خوش آئند نئی آٹو پالیسی کی بدولت ہے جسے ملک میں نئی اداروں کو مدعو کرنے اور بالآخر تین موجودہ اداروں کی اجارہ داری توڑنے کے لیے بنایا اور نافذ کیا گیا تھا۔

کیا کی آمد کے ساتھ ساتھ دیگر نئی گاڑیاں بھی ہیں کہ جن کا انتظار کیا جا رہا ہے اور جلد ہی یہ سب کے سامنے ہوں گی، جن میں آٹو انڈسٹری کے کچھ نئے کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ ایک صنعتی بزنس گروپ حبیب رفیق (پرائیوٹ لمیٹڈ) نے اپنا واحد ماڈل زوئٹے z100 کی صورت میں پیش کیا ہے جو چین سے درآمد شدہ ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں گفتگو کا محور وہ گاڑی ہے جو “یونائیٹڈ موٹر سائیکلز کمپنی” نے پیش کی ہے جو موٹر سائیکلیں اور آٹو رکشے بناتی ہے۔ ایک نیا شعبہ “یونائیٹڈ موٹرز” کے نام سے ادارے کی جانب سے بنایا گیا جس نے کاریں بنانے میں 18.1 ملین ڈآلرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

ایک سال سے زیادہ عرصے سے سوشل میڈیا جیانگنان TT کے نام سے معروف چینی گاڑی کی خبروں سے گونج رہا تھا۔ یہ گاڑی ہو بہو سوزوکی مہران لگتی ہے۔ ہر خبری ادارے نے اس بارے میں اطلاع دی اور دلچسپی کا سب سے اہم پہلو تھا اس کی سستی قیمت صرف 2،50،000 روپے۔ کسی نے اس گاڑی کو دیکھا نہیں تھا صرف اور صرف چینی ویب سائٹس کی تصاویر ہی ویب پر گردش کرتی رہیں۔ اس وائرل خبر میں یہ بھی شامل تھا کہ جلد ہی یہ پاکستان میں دستیاب ہو گی۔ بعد ازآں یہ یونائیٹڈ موٹر سے جوڑی گئی اور پاکستان کے درآمدی برآمدی اعداد و شمار نے تصدیق کی کہ دو ایسی گاڑیاں یونائیٹڈ موٹرز کی جانب سے درآمد کی گئی ہیں۔

Capture2

کچھ تصاویر اور ایک وڈیو کلپ نے بھی تصدیق کی کہ مہران کی یہ نقل یونائیٹڈ موٹرز کے پاس موجود ہے۔ فیکٹری کی وائرل تصاویر نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ یہ کافی حد تک J-TT جیسی ہے، بلکہ رائٹ ہینڈ ڈرائیو بھی ہے یعنی کہ اسے مقامی سطح پر بنایا جا سکتا ہے، یا یونائیٹڈ موٹرز خصوصی آرڈر پر اسے رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے ساتھ بطور CBU درآمد کر سکتا ہے کیونکہ چین لیفٹ-ہینڈ ڈرائیو ہے۔

لیکن جب PakWheels.com کے نمائندے نے یونائیٹڈ موٹرز کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ میری ذاتی رائے میں ممکنہ کاپی رائٹ حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ سے یونائیٹڈ موٹرز نے مہران جیسی کوئی بھی گاڑی پیش کرنے کے خیال کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اس یہی وہ وجہ ہو سکتی ہے کہ براوو کے لانچ میں اتنی تاخیر ہوئی کیونکہ یونائیٹڈ چند دیگر آپشنز کی جانب دیکھ رہا تھا۔

ادارے کے ایک عہدیدار نے پھر اطلاع دی کہ جو گاڑی وہ پیش کریں گے وہ مکمل طور پر نئی ہوگی اور اس میں اور مہران میں کوئی یکسانیت نہیں ہوگی اور یہ کہیں زیادہ فیچرز سے لیس ہوگی۔ یہی نہیں، یونائیٹڈ موٹرز نے دعوی کیا کہ یہ مقامی سطح پر دستیاب اپنے زمرے کی تمام گاڑیوں سے زیادہ بہتر ہوگی۔ دیگر الفاظ میں یہ مہران سے اچھی ہوگی کیونکہ 800cc کے شعبے میں مقامی طور صرف مہران ہی بنائی جاتی ہے۔ جی ایم یونائیٹڈ موٹرز جناب محمد افضل نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا

“ہماری گاڑی اور پک اپ سوزوکی برانڈز کی نقل نہیں ہیں۔ ہماری گاڑیاں مکمل طور پر مختلف ہیں اور پرکشش خصوصیات اور سیفٹی معیارات سے لیس ہیں۔”

United_Bravo

رواں سال کے اوائل میں انٹرنیٹ پر تصاویر پھیلنا شروع ہوئی کہ ایک گاڑی پاکستان کی سڑکوں پر جانچ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ بعد ازاں تصدیق ہوئی کہ یونائیٹڈ موٹرز نے چین سے کچھ یونٹس درآمد کیے ہیں اور ابتدائی طور پور یونائیٹڈ CBUs “کمپلیٹلی بلٹ یونٹس” فروخت کرے گا یہاں تک کہ مقامی اسمبلی اور پیداوار ممکن ہو۔ غیر رسمی تصاویر نے تصدیق کی کہ یونائیٹڈ کی پہلی گاڑی کا نام “براوو” ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر وہی اعلان “پاکستان کی سب سے سستی گاڑی” براوو کے ساتھ جوڑا گیا۔

car-bravo1

براوو، بلاشبہ، DH350S کا رائٹ ہینڈ ڈرائیو ری-بیجڈ ورژن تھا، جو ڈاہے موٹرز کی ایک گاڑی ہے۔ ادارے کے پورٹ فولیو کے مطابق یہ زیادہ تر چھوٹے شہروں کی کم رفتار والی الیکٹرک آٹوموبائلز اور موٹر سائیکلوں پر تحقیق، مینوفیکچر اور مارکیٹنگ میں مصروف رہا ہے۔

DH350S واحد گاڑی ہے جو وہ بطور گیسولین ویریئنٹ میں بناتے ہیں۔ جامع تحقیق کے مطابق مجھے گاڑی پر کوئی بھی ریویو، پریس ریلیز، تفصیلی وڈیو یا آٹوموٹو صحافتی مضمون نہیں مل سکا۔ درحقیقت DH350S کو تلاش کرنا یا تو چھوٹی مائیکرو الیکٹرک کار ویریئنٹ کو ظاہر کرتا ہے یا پھر زیادہ تر براوو کو۔ ڈاہے کی اپنی ویب سائٹ پر صرف ایک اسپیک شیٹ موجود ہے اور انٹیریئر یا ایکسٹیریئر کی تصویر تک نہیں۔ ویب سائٹ پر موجود DH350S کی واحد تصویر بھی کچھ مختلف گاڑی کی ہے۔ مزید تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص DH350S کے کم از کم 4 یونٹس کا آرڈر دے سکتا ہے، لیفٹ-ہینڈ یا رائٹ-ہینڈ ڈرائیو ورژن اور 4000 ڈالرز کی قابل گفت و شنید قیمت کے ساتھ۔

ذاتی طور پر میرے لیے اس کا مطلب ہے کہ DH350 ایک معروف ماڈل نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ چین میں فروخت ہی نہیں کیا جاتا اور ادارہ آپ کو یہ ماڈل فروخت کر سکتا ہے اور اسے آپ کا پسندیدہ نام دے سکتا ہے۔ چین بہت بڑی مارکیٹ مینوفیکچرنگ رکھتا ہے جبکہ ان کے پاس بہت اچھے ادارے اور قابل احترام مینوفیکچرنگ برانڈز ہیں، کئی سستے پرزے اور مینوفیکچرنگ آپریشنز ہیں۔ کئی ایسے ادارے ہیں جو آپ کی پسند کی مصنوعات آپ کی پسند کی قیمت پر بناتے ہیں اور انہیں ری برانڈ بھی کر سکتے ہیں۔ کبھی کبھار اس میں جعلی اور نقلی چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

ایک مرتبہ پھر یہ میری رائے ہے لیکن ایسا لگتا ہے جب یونائیٹڈ نے گاڑیاں بنانے کے کاروبار میں جانے کا آغاز کیا تو ان کا ڈاہے سے رابطہ ہوا۔ یونائیٹڈ مقامی مارکیٹ کے لیے چینی موٹر سائیکل بنانے والا معروف ادارہ ہے جو کام کرنے کے طریقے جانتا ہے اور علم رکھتا ہے کہ موٹر سائیکل بنانے کے بعد وہ چینی کار سازی کو حقیقت کا روپ کیسے دے سکتا ہے۔ لیکن انہیں اس شعبے میں اب بھی تجربے اور مینوفیکچرنگ سپورٹ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ڈاہے پہلے ہی چھوٹی مائیکرو الیکٹرک کاریں بنا رہا ہے، اس لیے وہ یونائیٹڈ موٹرز کی پسند کے مطابق سوزوکی مہران کی خصوصیات کی حامل 800cc گیسولین انجن سے چلنے والی چھوٹی ہیچ بیک بنانے کے قابل تھا، اور یہیں پر DH350 نے حقیقت کا روپ دھارا اور بعد ازاں پاکستانی مارکیٹ کے لیے اسے براوو کا نام دیا گیا۔

یونائیٹڈ کے پاس پاکستانی مارکیٹ میں براوو کے نام سے کے ساتھ DH350S کے خصوصی حقوق ہو سکتے ہیں۔ یونائیٹڈ موٹرز کے عہدیدار نے یہ بھی حوالہ دیا کہ ادارہ چھوٹی الیکٹرک کاریں بھی لائے گا اور یہ ممکنہ طور پر چین میں ڈاہے کے پیش کردہ یہی ماڈل ہو سکتے ہیں جو براوو کے چھوٹے ورژن لگتے ہیں۔

Capture

براوو کے بارے میں دلچسپی اور امیدیں تقریباً ایک سال تک بڑھتی رہیں اور ایک دن ایسا نہیں گزرا جب براوو کے بارے میں گفتگو نہ ہوئی ہے۔ گاڑی کے بارے میں توقعات پہلے ہی بہت زیادہ تھی اور عوام تصاویر اور حقیقی گاڑی دیکھنے کو بے تاب تھے۔ چند ہفتے قبل یونائیٹڈ موٹرز نے اعلان کیا کہ گاڑی کی رونمائی 8 ستمبر 2018ء کو لاہور میں ایک خصوصی تقریب میں کی جائے گی۔ لانچ ایونٹ شام ساڑھے 7 بجے تھا، لیکن یہ رات ساڑھے 11 بجے تک چلا گیا اور پورے آڈیٹوریم میں ایک افراتفری تھی کہ براوو کی قیمت کیا ہے۔ ہر شخص گاڑی پر پہلی نظر ڈالے بغیر اس کی قیمت میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ سب کا ماننا تھا کہ فیچرز اور معیار سوزوکی مہران سے کہیں بہتر ہوگا کیونکہ اس سے بدتر کچھ ہو نہیں سکتا۔ طویل انتظار کے بعد فیچرز کی فہرست کے ساتھ ساتھ یونائیٹڈ حکام کی جانب سے 8,50,000 روپے کی قیمت کا اعلان کیا گیا۔ پردہ بھی اٹھ چکا تھا اور گاڑی پر پہلی نظر ڈالنے کے لیے تمام افراد اپنی نشستوں سے بھی۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی گاڑی کے لانچ میں اتنی دلچسپی اور جوش نہیں دکھایا گیا تھا جتنا کہ براوو کے لانچ میں ملاحظہ کیا گیا۔

8

گاڑی کی قیمت کا اعلان ذرا مایوس کن تھا کیونکہ لانچ سے پہلے زبردست افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ گاڑی کی قیمت لگ بھگ 6,00,000 ہوگی۔ گو کہ قیمت توقع سے کہیں زیادہ تھی لیکن گاڑی کے فیچرز بیشتر لوگوں کے لیے خوش آئند تھے۔ میں نے گاڑیوں کے شوقین کئی افراد کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی کہ جو اس لانچ کا شدت سے انتظار کر رہے تھے اور تقریباً 90 فیصد افراد جن سے میں نے اس موضوع پر گفتگو کی کا کہنا تھا کہ یہ گاڑی مہران کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ کم اور گھٹیا معیار کی پروڈکٹ کا خاتمہ کہ جس میں کوئی فیچرز، آپشنز اور سیفٹی نہیں۔ ایک مرحلے پر تو سوزوکی سیٹ بیلٹس کے بھی اضافے پیسےے لے رہا تھا۔ لوگ یہ جانتے ہوئے بھی مہران خرید رہے تھے کہ وہ گھٹیا معیار کی ہے۔ یہ یقینی تھا کہ نئی مہران بلٹ کوالٹی کے مسائل کے ساتھ آئے گی اور خریدار ان تمام مسائل کے ساتھ ہی ڈیلرشپ سے اس گاڑی کو حاصل کریں گے۔ فٹ اور فنش کے گھٹیا معیار اور کسی فیچر کی عدم موجودگی بھی مہران کی فروخت کو متاثر نہ کر سکی۔ مہران کی گھٹیا کوالٹی اور صفر خصوصیات ایک آفاقی سچ ہیں۔

سوزوکی مہران لگ بھگ گزشتہ 30 سالوں سے حکمرانی کر رہی ہے، اور عوام اس کی شکل اور معیار سے تنگ آ چکے ہیں۔ 3 دہائیوں تک یہ سدا بہار رہی، لیکن حیران کن کامیابی یہ ہے کہ یہ بدستور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی رہی۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں کی جانب سے 800cc میں کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے اور مہران عوام پر بہت مہربان تھی؛ اس نے کبھی خود کو تبدیل کرنے کی تکلیف ہی نہیں کی۔ مارکیٹ میں اجارہ داری پر سوزوکی کا شکریہ۔ بارہا قیمتوں میں ناضافے کے باوجود مہران روزبروز خریدی جاتی اور بہت اچھی ری سیل ویلیو رکھتی تھی۔ آج بھی یہ ہماری مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی ہے اور اگر آپ اسے فروخت کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر خریدار بھی مل جائے گا۔ پرزے سستے ہیں اور ملک کے ہر کونے کھدرے میں دستیاب ہیں اور گاڑی کو ملک کے سب سے چھوٹے شہر کی سب سے چھوٹی ورکشاپ سے بھی ٹھیک کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مہران کوئی غیر معمولی گاڑی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ گھٹیا معیار اور مٹیریلز قطعاً غیر معمولی ہیں۔

یہ بالکل واضح ہے کہ سوزوکی مہران یونائیٹڈ موٹرز کے لیے معیار تھا۔ بظاہر اور شکل و صورت میں براوو سوزوکی مہران جیسی نہیں لگتی لیکن یہ ویسا ہی انجن استعمال کرتی ہے جیسا کہ مہران میں ہے گو کہ یہ سوزوکی یونٹ نہیں لیکن مہران میں پائے جانے والے F8B انجن کی چینی نقل ہے؛ اس انجن کا کوڈ LJ368QA ہے۔ انجن مہران جیسی ہی طاقت اور ٹارک رکھتا ہے۔ یہ انجن ووسی وولنگ پاور مشینری کمپنی بناتی ہے اور صرف چین میں موجود کمپنیوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔ سوزوکی F8B انجن ایک آزمودہ انجن ہے، نقل LJ368QA کتنا اچھا ہے، ہمیں آئندہ چند مہینوں اور سالوں میں پتہ چل جائے گا لیکن ایک پہلو خوش آئند ہے، مہران انجن کے پرزے ضرورت پڑنے پر براوو میں لگائے جا سکتے ہیں۔

تھوڑی بہت تحقیق کے بعد میں نے پایا کہ DH350، جس پر براوو کی بنیاد رکھی گئی ہے 747 کلوگرام وزن رکھتی ہے، جبکہ مہران لگ بھگ 650 کلو۔ 40HP اور 60NM ٹارک کی تقریباً یکساں کارکردگی براوو مہران کے مقابلے میں کچھ کم طاقت کی حامل لگ سکتی ہے کیونکہ اس پر 97 کلوگرام کا اضافی وزن ہے۔ مہران کی ایئر کنڈیشننگ خاص نہیں بلکہ بہت خراب ہے، ہوبہو ویسے ہی انجن اور دیگر پرزوں کے ساتھ براوو کیسی کارکردگی دکھائے گی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے جبکہ یہ مہران سے کچھ بھاری بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ براوو میں زیادہ مؤثر اور بہتر اے سی کمپریسر ہوگا۔ ہمیں مزید تب معلوم ہوگا جب براوو سڑکوں پر آئے گی اور گرمیوں کے سخت دنوں میں چلے گی۔ یونائیٹڈ حکام نے تو براوو کی مؤثر ایئرکنڈیشننگ کی تعریف کی ہے۔

فرنٹ اور ریئر سسپینشن سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ انجوں کے ساتھ لگائی گئی ٹرانسمیشن مہران جیسی ہی لگتی ہے۔ ہاں، گاڑی میں الیکٹرک اسٹیئرنگ سسٹم متعارف کروانے پر یونائیٹڈ کو شاباش ملنی چاہیے جو بلاشبہ ایک مثبت خبر ہے۔ براوو مہران کے مقابلے میں ذرا بڑی اور اونچی گاڑی ہے البتہ دونوں گاڑیوں کا مکینیکل سیٹ اپ ایک ہی ہے اس لیے ڈرائیونگ ڈائنامکس ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوں گے۔ براوو مہران کے مقابلے میں ایک انچ بڑے پہیے رکھتی ہے، لیکن مہران سے تقریباً 5 انچ اونچی ہے، موڑ پر یہ کس خوبی سے چلتی ہے اس کا اندازہ ٹیسٹ ڈرائیو سے ہی ہوگا۔ ڈاہے DH350 فی 100 کلومیٹر 4.5 لیٹر کی ایندھن کھپت رکھتی ہے۔ براوو کی اسپیک شیٹ کوئی بھی اعداد و شمار پیش نہیں کرتی لیکن میرا ماننا ہے کہ مہران جیسی یا اس سے تھوڑی سی کم ایندھن کھپت کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔

LJ368Q

یونائیٹڈ براوو مہران سے اتنی زیادہ متاثر ہے کہ اگر آپ دونوں گاڑیوں کی اسپیک شیٹ کا تقابل کریں تو حیران کن طور پر یونائیٹڈ نے پتہ چلتا ہے کہ براوو بنانے کے لیے یونائیٹڈ نے مہران کی خصوصیات تک کی پیروی کی۔ اسپیسیفکیشن کی ترتیب یہاں تک کہ فارمیٹنگ بھی وہی ہے؛ میرا مطلب ہے الفاظ کا انتخاب بھی۔ مہران یونائیٹڈ کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتی ہے اور ہیروز کے نقش قدم کی پیروی تو کرنی ہی چاہیے۔ دونوں کی اسپیسیفکیشن شیٹ دیکھیں، مہران “دی بیسٹ چوائس” بمقابلہ براوو “دی الٹیمیٹ چوائس”۔ ہاں، براوو میں کچھ خصوصیات زیادہ ہے اور یہ “فنکشنل ڈیوائسز” کی ذیل میں موجود ہیں گو کہ میں اب تک سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ “نائس کپ ہولڈرز” کیا ہے جبکہ اموبیلائزر کی صورت میں اہم فنکشنل ڈیوائس بھی براوو میں موجود نہیں۔

براوو نے مہران کی طرح ہر چیز کو فیچر کے طور پر درج کیا ہے لیکن مہران کے برعکس چائلڈ لاک فہرست میں شامل نہیں۔ کیا براوو میں چائلڈ لاکس کی تصدیق کی ضروری ہے، جو کہ چھوٹے بچوں کی صورت میں ضروری ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مہران میں ایک اضافی پہیہ ہوتا ہے، لیکن ہمیں یقین نہیں کہ براوو میں بھی ہے۔ میں یہ اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ DH350S کی تفصیلات کے مطابق اس میں کوئی اسپیئر ویل یعنی اضافی پہیہ نہیں، براوو نے شامل کیا ہے تو اس کو تصدیق کی ضرورت ہے۔

mehran.

41229756_10215873201494831_5219008133682167808_o

پاکستان میں کسی بھی ڈرائیور سے یہ سوال بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ اس اس نے کبھی مہران چلائی ہے اور سب کا جواب یقیناً ہاں میں ہوگا۔ مارکیٹ میں موجود سب سے سستی کار ہونے کی حیثیت سے ہر دوسرے گھرانے کا براہ راست اس گاڑی سے تعلق رہا ہے یا وہ اس کا مالک رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوزوکی مہران کو “پاکستان کی قومی کار” کہا جا سکتا ہے۔ پاک سوزوکی کے لیے مہران سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے، گاڑی جس کو کسی مارکیٹنگ یا سیلز اسٹریٹجی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بغیر کسی کوشش کے فروخت ہو جاتی ہے۔ اس لیے عوام کی بہت بڑی اکثریت مہران کی ساخت کے معیار اور ڈرائیونگ کی خوبیوں کے بارے میں جانتی ہے۔ پاک سوزوکی تین دہائیوں تک ہمیں ایک ہی ماڈل سے فیضیاب کرتا رہا، اور جب سوزوکی نے تبدیل ہونے یا اس کی جگہ کچھ مختلف پیش کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو براوو کی آمد اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن سے کم نہیں تھی۔

Fotor_146355477058766

براوو بہتر بلٹ کوالٹی کے ساتھ ساتھ زیادہ آپشنز اور فیچرز کے ساتھ متوقع تھی۔ اسپیسیفکیشن شیٹ کے مطابق چند متاثر کن اضافے بیک اپ کیمرا مع پروکسیمٹی سینسرز، پاور ونڈوز اور کچھ بہتر نظر آنے والا کلسٹر براوو کو کسی عام سادہ بجٹ اکانمی کار سے بہتر بناتے ہیں۔ سرفہرست VXR مہران سے تقابل کریں کہ جس کی قیمت 8 لاکھ 40 ہزار ہے، یہ تمام ششکے براوو کو زیادہ متاثر کن انتخاب بناتے ہیں۔

یونائیٹڈ کے جی ایم جناب افضل نے کہا کہ ان کی پرڈکٹ فیچرز کے ساتھ ساتھ بہتر سیفٹی بھی رکھے گی۔ گو کہ یونائیٹڈ نے براوو میں چند اضافی فیچرز شامل کیے ہیں لیکن سادہ سیٹ بیلٹ کے علاوہ کوئی سیفٹی فیچرز یا آلات نظر نہیں آئے۔ DH350 کی خصوصیات ظاہر کرتی ہیں کہ اس میں بنیادی ABS جیسی سیفٹی خصوصیات تک شامل نہیں۔ کرمپل/کریش زونز یا ایئربیگز کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے جو اس کلاس اور حجم کی گاڑی کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ جی ایم یونائیٹڈ کون سے سیفٹی فیچرز کی بات کر رہے تھے۔ جہاں تک سکیورٹی کا تعلق ہے یونائیٹڈ نے براوو کو اموبیلائزر تک سے لیس نہیں کیا جو مہران میں موجود ہے۔

ان سب سے بڑھ کر ایک بڑا سوال ہے گاڑی کی مجموعی پائیداری کے علاوہ ان تمام خصوصیات کے معیار اور بھروسہ مندی کا۔ جیسا کہ میں نے اس تحریر میں پہلے ہی لکھا کہ گاڑی پر مقامی طور پر تحقیق نہیں کی گئی یا یہ مقامی طور پر تیار شدہ نہیں بلکہ ری بیجڈ/ری-برانڈڈ ماڈل ہے اور جہاں تک کارکردگی، بھروسہ مندی، تکنیکی پہلوؤں اور مارکیٹنگ کا تعلق ہے تو اس کے مالک ادارے تک کی جانب سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ جس ماڈل پر براوو بنائی گئی ہے اس کی فروخت کے اعداد و شمار یا کوئی بھی دوسرے شماریات یا تھرڈ پارٹی کی آراء بھی نہیں۔

چند ماہ قبل براوو کے اجراء سے پہلے میرے قابل احترام ساتھی بلاگر نے اس معاملے پر ایک تفصیلی رائے پیش کی تھی۔ انہوں نے اپنی رائے اس طرح دی تھی کہ گویا براوو زمانہ قدیم کی مہران جیسی گاڑی کی سستی چینی نقل ہے۔ آج جب براوو کی خصوصیات ہمارے سامنے ہیں تو کم از کم ایک بات تو یقینی ہے کہ مہران کی نقل براوو کے تلے جی رہی ہے۔ تحریر شائع ہونے کے بعد انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور کئی قارئین نے ان کے شائع شدہ بلاگ پر تبصروں میں شدید غصے کا اظہار کیا۔ مصنف مہران کو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ انہیں خوف تھا کہ آنے والی براوو بھی ایک اور مہران نہ ہو۔ میں قارئین کو الزآم نہیں دیتا کیونکہ 30 سالوں تک گھٹیا معیار کا ایک ہی ماڈل دیکھنے کے بعد وہ “تبدیلی” چاہتے تھے اور کوئی بھی بیان جو بالواسطہ یا بلاوسطہ مہران کی حمایت میں جائے گویا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

براوو کے اجراء کے بعد سوشل میڈیا ایک مرتبہ پھر سرگرمی شروع ہوگئی۔ یہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ موضوع گفتگو تھی۔ تعریف اور خدشات کے ساتھ ساتھ کئی تصاویر بھی انٹرنیٹ پر آئیں۔ پہلا، قیمت توقع سے زیادہ تھی اور پھر براوو کی بلٹ کوالٹی بھی تنقید کی زد میں آئی۔ خراب کوالٹی کی فٹ اور فنش، ناقص رنگ و روغن اور نامکمل پینلز آنکھوں سے ہی ظاہر تھے۔ پینلز کے درمیان ناہمواری کئی فٹ دور سے واضح تھی۔ یہی مسائل ہم موجودہ جنریشن کی سوک کے پاکستان میں اجراء کے موقع پر دیکھ چکے تھے۔ تب ہونڈا کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہی مسائل ٹویوٹا انڈس کی جانب سے فورچیونر اور موجودہ جنریشن کی کرولا کے موقع پر بھی خبروں میں آئے۔ البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ بعد ازاں عام پیداواری سائیکل میں یہ مسائل کم سے کم ہوتے گئے۔

IMG-20180908-WA0046

IMG-20180908-WA0043

لیکن لانچ ایونٹ کے موقع پر ایسے نقائص پر لازماً پیشانیوں پر بل آئیں گے۔ اگر لانچ جیسے بڑے دن پر ہی ایسے مسائل نمایاں ہوں تو یہ ان پرزوں کے معیار پر بھی تشویش پیدا کریں گے کہ جو عام آنکھ سے نظر نہیں آ رہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ادارہ جن کی پروڈکٹ کے لیے عوام مرے جا رہے ہیں، کس طرح ایسی گھٹیا طور پر بنی ہوئی گاڑی کو لانچ پیڈ تک لا سکتا ہے۔

آٹوموٹو انڈسٹری میں دو الفاظ ہمیشہ رہتے ہیں “فٹ اور فنش”۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹس اور پینلز کو کس طرح یکجا کیا گیا ہے، درمیانی خلاء، فاصلوں، کناروں کو کس طرح پر کیا گیا ہے اور گاڑی کا اسمبل ہونے کے بعد دوسری گاڑی سے کس طرح تقابل کیا جا سکتا ہے۔ ویلڈنگ، بولٹنگ، پینٹنگ اور یہ فہرست بہت طویل ہے۔ سادہ ٹارک رینچ سے لے بہت ہی ماہر روبوٹس تک، ہر چیز شمار ہوتی ہے۔ کار کمپنیاں بہت کڑے کوالٹی کنٹرول یونٹس رکھتی ہیں جو کسی بھی فٹ اور فنش مسئلے کو فوری طور پر حل کر سکتی ہیں تاکہ یہی مسئلہ آگے نہ بڑھے اور پوری پیداوار پر ظاہر نہ ہو۔ گاڑی کے دروازوں کے پینلز کے درمیان ایک چھوٹا سا خلاء بھی گاڑی کے پورے تاثر کو خراب کر سکتا ہے اور ‏عام آنکھ سے ہی فوری طور پر نظر آ جاتا ہے۔ اندر اور باہر سے ایک اچھی طرح بنی ہوئی گاڑی کسٹمر کو خوش کرتی ہے۔

میری مایوسی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی جب مجھے بتایا گیا کہ ڈسپلے پر موجود گاڑیاں درحقیقت CBU/درآمد شدہ یونٹ ہے کیونکہ یونائیٹڈ نے ابھی تک مقامی سطح پر اسمبلنگ کا کام شروع نہیں کیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ عام طور پر CBU کہیں بہتر معیار اور ساخت کی ہوتی ہیں لیکن اب تشویش ہو رہی ہے کہ ڈاہے موٹرز میں کوالٹی کنٹرول کی حالت کیا ہوگی، اور جب گاڑی مقامی سطح پر بنیں گی تو تو کیا ہوگا کہ جب مقامی سپلائرز اسمبلی کے لیے پرزے فراہم کریں گے۔

جب میں نے ان خدشات کو سوشل میڈیا پر پیش کیا تو مجھے سخت تنقید اور جارحانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں اس کا الزام کسی کو نہیں دیتا۔ عوام براوو پر اندھا اعتماد قائم کر چکے ہیں کیونکہ مہران کا ان کا تجربہ بہت برا رہا ہے جو درحقیقت درست بات ہے۔ ہر دوسرا شخص جس سے میرا رابطہ ہوا اس کے دلائل “مہران کی کوالٹی بھی اچھی نہیں” قسم کے تھے جبکہ کچھ کی رائے تھی کہ “براوو میں کہیں زیادہ فیچرز ہیں”۔ میرا استدلال سادہ سا ہے۔ مہران کے معیار کو براوو سے کس طرح اور کیوں ملایا جائے؟ کیا ناقص معیار کی مہران براوو کی کم کوالٹی کا جواز ہے/ہوگی؟ اس صورت میں کہ مستقبل میں فٹ اینڈ فنش کا معیار ایسا ہی رہا جیسا لانچ کے موقع پر دیکھا گیا۔ جہاں تک معیار کا تعلق ہے تو آخر مہران براوو کے لیے بنیاد کیوں ہے۔ دوسری بات، کیا اضافی فیچرز پر ہم معیار کی سودے بازی کرلیں؟

IMG-20180908-WA0040

میری رائے میں گاڑی میں فیچرز پر ہمیشہ معیار بالادست ہونا چاہیے۔ ایک اچھی گاڑی پورے پیکیج کے ساتھ آتی ہے بشمول معیار، سیفٹی، آپشنز اور فیچرز لیکن کوالٹی ہمیشہ سب سے بنیادی چیز ہے کیونکہ یہ پوری پروڈکٹ کی قدر و اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ واحد مقابل پروڈگٹ مہران کی صورت میں ہے جو براوو میں موجود تمام نئے فیچرز سے محروم ہے، اس لیے یہ بات خریدار کی توجہ مبذول کرواتی ہے۔ لیکن خریدار کے طور پر ہمیں خود آگہی کی ضرورت ہے اور معیار کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ براوو کی قیمت کو ایک سطح پر، اور اسے مہران سے ایک درجہ آگے رکھنے کے لیے، یونائیٹڈ کو معیار پر سودے بازی نہیں کرنی چاہیے اور اسے اعلیٰ ترین معیار کا بنانا چاہیے۔

آخر بات، ہر فرد براوو کو مہران کے مقابل بنا کر پیش کر رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم یہ مقابلہ زیادہ دیر تک نہیں دیکھ پائیں گے۔ یونائیٹڈ بدستور اپنے ڈیلرشپ نیٹ ورک کو قائم کرنے کے عمل میں ہے اور ادارے کی جانب سے ابھی کوئی وقت نہیں دیا گیا کہ گاڑی پاکستان بھر میں فروخت کے لیے کب پیش ہوگی۔ لانچ ایونٹ میں لفظ “جلد” کا استعمال کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یونائیٹڈ کو اپنے سیلز آپریشن کو شروع کرنے میں مزید چند ماہ لگیں گے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کیا یونائیٹڈ CBU فروخت کرے گا یا فروخت تبھی شروع ہوگی جب مقامی اسمبلی لائن کام کا آغاز کرے گی۔

پاک سوزوکی ایک باضابطہ نوٹیفکیشن کے ذریعے اعلان کر چکا ہے کہ مہران کی پیداوار مارچ 2019ء میں ختم ہو جائے گی۔ ایک ممکنہ خریدار کے لیے براوو اور مہران کے درمیان تقابل کے شاید چند ہی مہینے ہوں۔ اس دورانیے کا یونائیٹڈ کتنی اچھی طرح فائدہ اٹھا پائے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ یونائیٹڈ ابتداء میں اپنی پروڈکٹ، سیلز اور ڈلیوری کی ممکنہ خامیوں پر قابو پائے۔ لیکن اس کے بعد کھیل یونائیٹڈ کے ہاتھ میں ہوگا کیونکہ براوو میدان میں واحد کھلاڑی کے طور پر رہ جائے گی۔ مہران اپنے حتمی انجام کو پہنچے گی اور اس کے متبادل کی صورت میں آلٹو کا انتظار کیا جائے گا۔

یونائیٹڈ کے لیے آغاز میں دشواری ہوگی کیونکہ چند خریدار ہو سکتا ہے انتظار کریں اور دیکھیں کہ سوزوکی کیا لاتا ہے اور یوں کچھ خریدار حتمی فیصلے کے لیے رک سکتے ہیں۔ لیکن 8,50,000 روپے کا زیادہ سے زیادہ بجٹ رکھنے والے ہو سکتا ہے براوو کی طرف جائیں۔ ایک مرتبہ پھر یہ میری رائے ہے اور ایک مفروضہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ میں مکمل طور پر غلط ہوں لیکن میرے خیال میں یونائیٹڈ اور پاک سوزوکی کے درمیان کوئی مفاہمت ضرور ہے۔ ہماری صنعت میں گٹھ جوڑ بہت متحرک ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان اور کسی براہ راست مسابقت کے بغیر باہمی مفادات کو تحفظ دینا ہمیشہ موجود رہا ہے۔ سوزوکی مہران کے خاتمے کے فوری بعد یونائیٹڈ براوو کا اجراء بھی شاید اسی سلسلے کی کڑی ہو۔ ایسی مستحکم خبریں ہیں کہ آنے والی آلٹو براوو سے زیادہ مہنگی ہوگی اور سوزوکی اسی طرح اس میں اضافی فیچرز پیش کر سکتا ہے جیسا کہ یونائیٹڈ نے اپنی براوو کو مہران سے بہتر دکھانے کے لیے پیش کیے۔ سوزوکی آلٹو کی بنیادی قیمت کو 9,50,000 روپے تک لا سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں سوزوکی میدان میں کسے اتارتا ہے اور 800cc کے شعبے میں اس کی حکمت عملی کیا رہتی ہے۔

میری امید اور خواہش ہے کہ یونائیٹڈ اپنی مصنوعات کے ساتھ کامیاب ہو اور صارفین کو بہتر گاڑیاں ملیں اور سخت مقابلہ صارفین کو زیادہ سے زیادہ آپشنز کے لیے اکسائے۔ قوم نے اپنا پورا اعتماد انہیں اور ان کی پروڈکٹ کو دیا ہے، اب یونائیٹڈ کی جانب سے ویسے ہی عملی اقدامات کا وقت ہے۔ اپنی پہلی پرزڈکٹ کی لانچ کے بعد یونائیٹڈ کو صارفین کے فیڈبیک کو مثبت اور ساتھ ساتھ منفی لے کر قدم اٹھانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ یونائیٹڈ براوو کو اس شعبے میں ایک نیا معیار بنائے گا، بہتر معیار اور سیفٹی آلات کے ساتھ۔ اور 5 سے 6 سال کے ایک کامیاب دور کے بعد نئی اور بہتر جنریشن میں تبدیل کرے گا اور مہران کے نقش قدم پر نہیں چلے گا کہ جو 30 سال سے زیادہ عرصے تک ہمارے ساتھ چلی۔

IMG-20180910-WA0033

IMG-20180908-WA0052

IMG-20180908-WA0041

IMG-20180908-WA0049

IMG-20180908-WA0052

IMG-20180910-WA0037

تازہ ترین خبروں اور جائزوں کے لیے ہمارے بلاگ پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.