میرا خواب: جدید خصوصیات سے آراستہ سوزوکی مہران VTi اوریئل پروسمیٹک
“وہ آیا، اس نے دیکھا، اس نے فتح کیا اور ہمیشہ کے لیے دلوں میں بس گیا”۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ کسی تاریخی کتاب یا فلم کا فقرہ معلوم ہو جو کسی بہادر سپہ سالار یا رحم دل بادشاہ کی تعریف میں بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن یہ پاکستان میں دستیاب سوزوکی مہران (Mehran) پر بھی پوری طری صادق آتا ہے۔
انتہائی ناقص معیار کے باوجود غیر معمولی قیمت میں فروخت ہونے والی پاکستانی مارکیٹ کی بدترین گاڑی ہونے کے باوجود یہ ہزاروں کی تعداد میں خریدی اور فروخت کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ بیرون ملک سے آنے والی وہ گاڑیاں جو قیمت میں اس سے کہیں سستی اور اضافی خصوصیات کی حامل ہیں، بھی “عظیم الشان” مہران کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے، میرے خیال سے تو وہ اس کے سامنے ٹک بھی نہ سکیں۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد کہ سوزوکی مہران اب یہیں رہے گی، ہمیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ یہ سوچنا چاہیے کہ اسے بہتر کیسے بنائیں؟ جی ہاں، پہلے پہل یہ خیال آیا تو مجھے بھی بہت ہنسی آئی لیکن اس میں کوئی برائی بھی نہیں کہ ہم خصوصیات کی ایک فہرست تیار کیں اور اسے پاک سوزوکی کے سامنے رکھیں، جنہیں وہ مہران میں شامل کر کے اسے ہمارے خون پسینے کی کمائی کے ساڑھے 6 لاکھ روپے وصول کرنے کے قابل بنائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں مہران کی جگہ نئی آلٹو متعارف کروائی جارہی ہے؟
میں نے تقریباً 10 سال پہلے ایک مہران چلائی تھی۔ ایک شاہراہ پر 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مہران “بھگاتے” ہوئے ایک معمولی سی ٹکر ہونے کی دیر تھی کہ اس کا ایکسل الگ ہوگیا اور میں سامنے سے آنے والے ایک ٹرک میں گھستا چلا گیا۔ اسے میں خوش قسمتی ہی سمجھتا ہوں کہ بجری سے لدے ہوئے 40 سال پرانے ٹرک کا معیار میری مہران سے بہت بہتر تھا تبھی وہ میرے چہرے سے صرف چند انچ کے فاصلے پر رکنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس دل ہلادینے والے واقعے کے اگلے ہی روز میں نے مہران فروخت کردی اور اس کے بعد وہ کبھی ہمارے خاندان کا حصہ نہیں بن سکی۔
لیکن ہمارے نہ خریدنے کے فیصلے سے کوئی فرق نہ پڑا اور وقت کے ساتھ میں نے سڑکوں پر اس کی تعداد میں اضافہ ہوتے ہی دیکھا۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ بیکری میں کیک اور بسکٹ کی طرح کم لاگت میں فروخت ہوتی رہی ہے۔ مجھے کئی بار اس کی بڑھتی ہوئی قیمت کا سن کر حیرت بھی ہوئی لیکن اس کے باوجود میں نے اسے خریدنے سے متعلق کبھی نہیں سوچا۔ مگر حال ہی میں مجھے مہران خریدنے کا خیال آیا۔ لیکن کیوں؟ آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔
مجھے بتایا گیا کہ مہران اب ویسی نہیں جیسی 10 سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی حالت بھی اب پہلے سے بہتر ہوگئی ہے اور اب مہران شہروں میں سفر کے لیے یہ اچھی گاڑی ثابت ہورہی ہے۔ یہ باتیں سن کر میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیے استعمال شدہ مہران خریدنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن مجھے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ جو بھی مہران میں نے دیکھی وہ بری طرح گھسی پٹی ہوئی محسوس ہوئی۔ کسی کی چولیں ہلی ہوئی ہیں تو کوئی بالکل ناکارہ، پلاسٹک کی بنی ہوئی، جھٹکوں کے ساتھ چلنے والی گاڑی ہے۔ کوئی درجن بھر گاڑیاں دیکھنے کے بعد میرا دوست اس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے سوزوکی مہران سے کچھ زیادہ ہی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں اور اب مجھے نئی مہران دیکھنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مہران کی ہم شکل چینی گاڑی پاکستان آیا چاہتی ہے؟
میرے دوست کی بات بالکل ٹھیک ثابت ہوئی۔ تقریباً 600 کلومیٹر چلی ہوئی، تقریباً نئی غیر رجسٹرڈ سوزوکی مہران کے لیے جب ساڑھے 6 لاکھ مانگے گئے تو مجھے بالکل یہی ایسا ہی محسوس ہوا۔ اور یہی احساس اس تحریر کی وجہ بنی۔
سات سال پرانی تقریباً درجن بھر گاڑیاں ایسی ہیں جو میران کی قیمت میں مجھے مل سکتی ہیں۔ سوزوکی مہران کے مقابلے میں ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں ان خصوصیات کی حامل ہوں گی:
1۔ بہتر معیار
2۔ اینٹی-لاک بریکنگ سسٹم (ABS)
3۔ ایئربیگز
4۔ پاور اسٹیئرنگ
5۔ پاور ونڈوز
6۔ ٹانگے پھیلانے کی بہتر جگہ
7۔ ہوادار کیبن
8۔ بہتر ایئر کنڈیشنر (AC)
9۔ خودکار ٹرانسمیشن کا انتخاب
مجھے یقین ہے کہ میں کچھ خصوصیات بھول بھی رہا ہوں لیکن بہرحال انہی سے شروعات کرتے ہیں۔
اس فہرست میں اولین حفاظتی سہولیات ہیں۔ پاک سوزوکی سے ایئربیگ کی سہولت مانگنا شاید کچھ زیادہ ہوجائے لیکن ABS ہر گز غیر ضروری نہیں ہے۔ ہمیں اب اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ 2015 میں ABS کا ہونا کوئی شوق نہیں، بلکہ اہم ضرورت ہے۔ یہ عیاشی کے زمرے میں نہیں آتا کہ جس کی ضرورت صرف امیروں کو ہی ہو۔ یہ بنیادی حفاظت کا ایک انتہائی اہم نظام ہے کیونکہ مہران میں بیٹھے ہوئے شخص کی زندگی بھی اتنی ہی اہم ہے کہ جتنی ایک نئی ہونڈا سِوک (Civic) میں سفر کرنے والے فرد کی (آپ مانیں یا نہ مانیں)۔ اور یہ ایک ایسی سہولت ہے جو مہران کے کام کرنے کے ‘پیچیدہ’ طریقے میں رکاوٹ بھی نہیں ڈالے گی۔ اس لیے برائے مہربانی، ABS کو شامل کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پیش خدمت ہے نئی سوزوکی مہران – سال 2050 کا خاص تحفہ!
اس کے بعد کیبن انسولیشن۔ میں نے ایسی مہران گاڑیاں دیکھیں جن کو خریدنے کے بعد ان میں شور کو کم کرنے کے لیے علیحدہ سے کام کروایا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طریقہ واقعی کام کرتا ہے۔ اگر کوئی نیا شخص جس کے پاس گاڑیوں کی معلومات نہ بھی ہو تو چند چادروں کو طے کر کے گاڑی کے اندر شور کم کرسکتا ہے تو پھر ہزاروں ملازمین، انجینئرز، ساؤنڈ ماسٹرز کے ساتھ ایک ادارہ یہی کام کئی گنا کم قیمت میں بہتر انداز سے کرسکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سفری تجربہ بہتر ہوگا، دروازے بہتر انداز میں بند ہوں گے بلکہ رکشا، چنگ چی، موٹر سائیکلوں اور خود اپنی گاڑی کے انجن کے شور کی وجہ سے چیخ چیخ کر بات بھی نہیں کرنا پڑے گی۔ علاوہ ازیں آپ کو دیگر سہولیات میں بھی بہتری ملے گی: مثلاً یہ گاڑی کو جلد ٹھنڈا کرنے میں AC کو مدد ملے گی۔ تو اب یہ آپ کا انتخاب ہے کہ آپ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں یا نہیں۔ میں تو چاہوں گا کہ سوزوکی اس موقع کو ضائع نہ کرے۔
اب آتا ہے پاور اسٹیئرنگ۔ کیا آپ نے غور کیا کہ آج کے بڑے ڈیل ڈول لڑکے چست قمیضوں میں گھسے ہوئے کیسے لگتے ہیں؟ اس پر پاک سوزوکی کے دوستوں کی مہربانیاں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ گاڑی چلانے والے کو کتنی سہولت مل سکتی ہے کہ جب اسے ہر بار یو-ٹرن لینے کے لیے اسٹیئرنگ پر کشتی کا کوئی داؤ نہ استعمال کرنا پڑے؟ بلال گنج اور شیر شاہ میں موجود عام مکینک بھی 6 ہزار روپے میں برقی پاور اسٹیئرنگ لگادیتے ہیں۔ اس میں ان کا منافع اور نصف گھنٹہ کام کرنے کی مزدوری بھی شامل ہے۔ کیا آپ کا جدید ترین کارخانہ ان سڑک چھاپ مزدوروں سے مہارت اور قیمت میں مقابلہ کرسکتا ہے؟ اور ہاں جب آپ یہ کر ہی رہے ہیں تو چند موٹرز کے ذریعے پاور ونڈوز نصب کرنے سے بھی آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں وہ کونسی دو چیزیں ہیں جن کو چلانے کے لیے اب بھی چرخی استعمال ہو رہی ہے؟ ایک ہے سائیکل اور دوسری ہے وہ سلائی کی مشین جو ہماری امائیں اپنے جہیز میں لے کر آئیں تھیں۔
اگلی چیز جو میری فہرست میں ہے وہ نشستوں یعنی سیٹس کی مکمل جدت ہے۔ دوبارہ ایک تیر سے دو شکار والا معاملہ۔ ڈائی ہاٹسو میرا (Mira) اور نسان پینو (Pino) جیسی چھوٹی جاپانی گاڑیوں کی بہتر گنجائش سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی سیٹیں پشتو فلم کی ہیروئن کی طرح موٹی نہیں ہوتیں۔ یہ پتلی، آرام دہ اور بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ انہیں بالٹی کی طرز پر بنایا گیا ہے جو مہران کی ان گول نشستوں سے بالکل مختلف ہیں جن کی وجہ سے مہران چلانے کے دوران موڑ کاٹتے ہوئے آپ کی آدھی توجہ اپنا توازن برقرار رکھنے میں لگ جاتی ہے۔ اگر پاک سوزوکی اس پر نظر کرم کرے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ بہتر نشستوں کے ساتھ کم از کم 5 انچ کی اضافی جگہ نکال کر انہیں مزید آرام دہ بنایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوزوکی مہران سے بھی سستی سیڈان – اور کیا چاہیے!
اور آخر میں – خود کار گیئر باکس یعنی آٹومیٹک ٹرانسمیشن کا انتخاب۔ وہ دن اب چلے گئے کہ جب آٹومیٹک گاڑیاں شجر ممنوعہ ہوا کرتی تھیں یعنی انہیں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ بیرون ممالک سے گاڑیوں کی درآمد شروع ہونے کے بعد سے لوگ آہستہ آہستہ خود کار گاڑیوں کی طرف راغب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں سفر کرتے ہوئے کہ جہاں نصف گھنٹہ ٹریفک جام میں پھنسے رہنا معمول کی بات ہو، خود کار گاڑیاں ایک آسان حل کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق، میں آج تک ایسے کسی شخص سے نہیں ملا جس نے اپنی گاڑی کو آٹومیٹک سے مینوئل گیئر باکس پر منتقل کروایا ہو۔ اگر آپ ایک خود کار نظام والی گاڑی چلا رہے ہیں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ مینوئل ٹرانسمیشن کے ان تمام پرستاروں کے لیے، جو اس وقت مجھے کوس رہے ہیں، جب آپ ایک E36 M3 خریدیں تو یقین کرلیجیے گا کہ وہ مینوئل ہی ہو۔ لیکن خدا کے لیے، یہ 800 سی سی مہران ہے۔ اس میں تو خودکار نظام لگا لیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا بایاں پیر اس فیصلے پر تاعمر آپ کا احسان مند رہے گا۔
تو یہ ہے مہران 2016ء کے لیے میری خواہشوں کی فہرست۔یقین کیجیے کہ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہتا۔ ابھی تو میں نے پروجیکشن ہیڈلیمپس، 8 ایئر بیگز، ڈوئیل زون کلائمٹ کنٹرول، 14 انچ کے BBS الائیز، ایک سی ڈی پلیئر یا راستے میں رہنمائی کے نظام (نیوی گیشن سسٹم) کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ ننھی سی خواہشات ہیں کہ جتنی قیمت لی جارہی ہے، گاڑی اس کی مستحق ہو کیونکہ پاکستان میں پیسہ کمانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس قیمت میں سوزوکی مہران آپ کے لیے مزید متاثر کن کیسے ہوسکتی ہے؟ کیا آپ میری تجاویز سے متفق ہیں؟ یا ان میں سے کچھ کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مہران کی قیمت میں کمی ہونی چاہیے؟ تبصرے ذریعے اپنی آراء اور تجاویز دینا مت بھولیے گا۔ کیا پتہ پاک سوزوکی سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد انٹرنیٹ پر گردش کرتا ہوا اس بلاگ پوسٹ تک آ پہنچے اور اپنے کاروباری انداز کا دوبارہ جائزہ لے۔