سوزوکی لیانا: ایک ایسی گاڑی جو مرگلہ اور بلینو جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکی
اب سے کوئی دو سال قبل پاک سوزوکی نے لیانا کی تیاری بند کردی تھی۔ دیگر دنیا میں اس کی تیاری ویسے بھی 2005 میں ختم کردی گئی تھی۔
سوزوکی لیانا (Suzuki Liana) کو مشہور زمانہ سوزوکی بلینو سیڈان کا جانشین قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا مجموعی انداز بھی اپنے پیشروؤں سے کافی میل کھاتا تھا۔ عقب میں موجود سسپنشن، ہائیڈرولک پاور اسٹیئرنگ کی خاصیت اور ملٹی پوائنٹ فیول انجکشن ان چند چیزوں میں سے ایک تھے جو پرانی سوزوکی بلینو سیڈان سےاس کا تعلق ظاہر کرتے تھے۔ البتہ اس میں چند چیزیں کافی منفرد بھی تھیں۔ مثلاً یہ پہلی گاڑی تھی کہ جسے پاک سوزوکی نے ایلمونیم الائے انجن بلاک کے ساتھ ڈیول اوور ہیڈ کیم شیفٹس (DOHC) کے علاوہ اموبلائزر (immobilizer) کے ساتھ بھی پیش کیا تھا۔
ادارے کی جانب سے اس کے بیسک ورژن RXi میں سی این جی کٹ کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔ اس میں اموبلائزر کے علاوہ 2-ڈِن سی ڈی پلیئر، 4 اسپیکرز اور پاور ونڈوز بھی شامل تھیں۔ ان خصوصیات ہی کی وجہ سے اسے ٹویوٹا کرولا اور ہونڈا سِٹی جیسی گاڑیوں کے مدمقابل سمجھا جاتا تھا۔ کرولا (Xli/Gli) حتی کہ سِٹی می بھی اس وقت پرانے زمانے کا کیسٹ پلیئر کے ساتھ صرف 2 اسپیکرز پیش کیے جاتے تھے اور ان میں ABS جیسی عام سہولت بھی شامل نہ تھی۔ چونکہ ABS مزید مہنگے اور بہتر ورژن LXi میں پیش کیا جاتا تھا اس لیے لیانا کو ان پر برتری حاصل تھی۔ اس وقت ہونڈا سِوک اور کرولا آلٹِس میں اموبلائزر بھی شامل نہ تھا جس کی وجہ سے چوروں کی پسندیدہ گاڑیاں بن چکی تھیں۔
یہ تمام خصوصیات کاغذی طور پر کسی بھی گاڑی کی اہمیت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ تاہم جس چیز نے لوگوں کا رخ پھیرا وہ اس گاڑی کی غیر معمولی اونچائی تھی۔ زمین سے کافی اونچی ہونے سے بھی اسے مدد نہ ملی اور پھر 14 انچ کے پہیوں کے باعث مجموعی حجم بھی کافی زیادہ معلوم ہوتا تھا۔ رہی سہی کسر اسے خریدنے والوں کے منفی تبصروں نے پوری کردی جو سوزوکی گاڑیوں کے سستے پرزوں کے عادی تھے۔ ان کی یہ شکایت زیادہ غلط بھی نہ تھی کیوں کہ سوزوکی لیانا کے پرزے دیگر ہم پلہ گاڑیوں کے مقابلے میں کافی مہنگے تھے۔ صارفین کے اسی رویے نے لیانا کے زوال کا آغاز کیا۔
ایک اور مسئلہ جو صرف لیانا ہی کے ساتھ دیکھا گیا وہ یہ تھا کہ گیئر تبدیل کرتے ہوئے گاڑی کی رفتار انتہائی سست ہوجاتی تھی۔ یہ مسئلہ آخری روز تک جاری رکھا حتی کہ اسے لیانا پر کلنک کا داغ تک قرار دے دیا گیا۔ یہ وہ اہم عوامل تھے جس نے روز مرہ گاڑی استعمال کرنے والوں کو لیانا کی خریداری سے باز رکھا اور یوں اس کی فروخت بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔
کہانی کا خلاصہ یہ رہا کہ لیانا سے بہت کچھ حاصل کیاجاسکتا تھا لیکن پاک سوزوکی نے روایتی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں ہونے والے مسائل پر کوئی توجہ نہ دی۔ آج تاریخ کی کتاب میں لیانا کو اپنے پیشروؤں کے برعکس ناکام ترین گاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے جس نے اپنے مقولے “نئے دور کی زندگی” کو سچ ثابت نہ کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ لیانا میں کافی دم تھا۔ یہ بلاشبہ ہونڈا سِٹی کے مدمقابل آسکتی تھی لیکن پاک سوزوکی نے یہ موقع گنوا دیا اور ہونڈا (Honda) کے لیے میدان کھلا چھوڑدیا جس پر اس نے برسوں راج کیا۔ ماضی کی مشہور سوزوکی سیڈان مرگلہ (Margalla) اور بلینو (Baleno) کی شاندار کامیابی کے برعکس لیانا پاکستانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کے دلوں کو جیتنے میں بری طرح ناکام رہی۔