گاڑیوں و موٹر سائیکل کی چوری میں اضافہ؛ متعلقہ شعبے کے لیے لمحہ فکریہ

1 291

اب سے چندماہ قبل میری گاڑی کراچی کی ایک مصروف شاہراہ سے غائب ہوگئی۔ کافی تلاش کے باوجود جب کوئی سراغ نہ ملا تو مقامی تھانے کا رخ کیا اور “کچی ایف آئی آر” کٹوا دی۔ وہاں موجودہ پولیس اہلکار سے جب میں نے “پکی ایف آئی آر” درج کرنے کا کہا تو اس نے اپنے مخصوص تحکمانہ لہجے میں کہا “بھائی! زیادہ پریشان نہ ہو، صبح تک گاڑی مل جائے گی”۔ میں نے حیرت سے دریافت کیا کہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو اس پر پولیس اہلکار نے اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں روز ہی گاڑی چوری ہونے کی شکایات ملتی ہیں اور اگلے روز مل جاتی ہے البتہ اس میں سے سی این جی کٹ، بیٹری، ڈیش بورڈ کا سامان اور پہیے وغیرہ نکال لیے جاتے ہیں۔ یہ بات میرے لیے نہ صرف حیران کن تھی بلکہ پریشانی کا بھی باعث تھی۔ مزید استفسار پر پولیس اہلکار نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بہت سی گاڑیاں ایسی بھی ہیں جو آج تک “لاپتہ” ہیں اور ان کے مالکان تھانے کے چکر لگا کر اپنی جوتیاں گھسنے کے بعد اب تھک ہار کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔

پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ایک طرف ٹویوٹا انڈس موٹرز ہے کہ جس کا کارخانہ نئی ٹویوٹا کرولا کی آمد کے بعد سے روازنہ 8 گھنٹوں کی تین شفٹوں میں مسلسل کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف حکومتِ پنجاب کی سبز ٹیکسی اسکیم کی بدولت پاک سوزوکی بھی مہران، بولان اور راوی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ علاوہ ازیں جاپان سے گاڑیوں کی درآمد میں بھی زبردست تیزی آ رہی ہے جس کا اندازہ رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےجو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں دگنا ہوگئی ہے۔ جولائی تا اکتوبر 2014-15 میں 7,981 گاڑیوں کو پاکستان منگوایا گیا جبکہ رواں سال یہ تعداد 14,106 تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے کو پھلتے پھولتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی چوری میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کالے دھند کو سفید سے تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی “بلیک مارکیٹ” گاڑیوں کے شعبے پر منفی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس لیے گاڑیوں کے شعبے کی ترقی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتِ وقت نئی آٹو پالیسی میں سخت قوانین اور نئی تجاویز بھی شامل کرے۔ نئی آٹو پالیسی میں نہ صرف کار ساز اداروں کو بہتر حفاظتی سہولیات فراہم کرنے پر زور دیا جائے بلکہ قانون ساز اداروں کو اس ضمن میں موجود قوانین کو بہتر بنانے کی تجویز بھی دی جانی چاہیے۔

چند سال قبل تک پاکستان میں سالانہ 11 ہزار گاڑیاں چوری کی جاتی تھیں جن کی مجموعی مالیت لگ بھگ 2 ارب روپے تھی تاہم تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ چوری ہونے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھ کر سالانہ 21 ہزار گاڑیوں تک جا پہنچی ہے جس کی کُل مالیت 5 ارب روپے ہے۔ سب سے زیادہ گاڑیاں کراچی، راولپنڈی اور اسلام آبادمیں چوری کی جاتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چوری ہونے والی سب سے زیادہ گاڑیاں سوزوکی اور ٹویوٹا کی ہیں۔ اس کی بظاہر وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ ان دونوں کار ساز اداروں کی برانڈز ملک میں سب سے زیادہ مشہور ہیں لیکن اصل وجہ ان جاپانی کارساز اداروں کی گاڑیوں میں لگایا گیا سیکورٹی کا ناقص نظام ہے۔ سوزوکی مہران، ٹویوٹا کرولا، سوزوکی کلٹس، ڈائی ہاٹسو کورے اور سوزوکی آلٹو گاڑیاں چوری کرنے والوں میں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ جبکہ موٹر سائیکل میں ہونڈا CG125 سب سے زیادہ چھینی جاتی ہیں۔

چوری ہونے والی گاڑی اور موٹر سائیکل کو یا تو بلیک مارکیٹ میں سستے داموں بیچ دیا جاتا ہے یا پھر ان کے پرزے نکال کر فروخت کردیے جاتے ہیں۔ چوری شدہ گاڑی خریدنے والے چند روز کے لیے گاڑی کو کسی جگہ چھپائے رکھتے ہیں اور اس دوران جعلی کاغذات کی تیاری، نمبر پلیٹ، انجن اور چیسز نمبر تبدیل کرنے جیسے کام کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام کام مکمل ہوجانے کے بعد گاڑی کو فروخت کے لیے پیش کردیا جاتا ہےیا پھر اسے غیر قانونی کاموں جیسے اغوا برائے تاوان، چوری و ڈکیتی، قتل و غارت، منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چوری ہونے والی گاڑیوں کی “پکی” ایف آئی آر نہ کاٹے جانے اور ڈیٹابیس موجود نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی قانون کی گرفت میں نہیں آتی۔ اور اگر کسی وجہ سے قانون کی نظروں میں آ بھی جائے تو رشوت کے ذریعے معاملات طے کرلیے جاتے ہیں۔

بزور طاقت یا کسی بھی طریقے سے گاڑی چوری کرنے کیے واقعات میں کمی لانے کے لیے قانون پر عملدرآمد اور بلا تفریق یکساں نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔ چونکہ گاڑیوں کی چوری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کا شمار تیزی سے بڑھنے والے جرائم میں کیا جانے لگا ہےاس لیے موجودہ قوانین پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ مزید یہ کہ اس جرم میں گرفتار شخص کو ضمانت پر رہا کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے کیوں کہ اکثر افراد رشوت یا ضمانت لے کر سزا سے بچ جاتے ہیں اور دوبارہ اپنے گروہ سے مل کر چوری کا دھندا جاری رکھتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.