پاکستان میں نسان کی ممکنہ آمد: ڈاٹسن GO اور GO+ پیش کی جاسکتی ہیں

2 739

پاکستان میں گاڑیاں تیار و فروخت کرنے والے اداروں میں نسان بھی شامل رہی ہے۔ گو کہ بات تھوڑی پرانی ہے لیکن بہت سے قارئین جانتے ہی ہوں گے 70 اور 80 کی دہائی میں ڈاٹسن کے نام سے کئی گاڑیاں سامنے آئیں جنہوں نے قابل ذکر مقبولیت بھی حاصل کی۔ ڈاٹسن 120Y ان گاڑیوں میں سے ایک ہے جنہیں کافی پسند کیا گیا تھا۔ میرے حلقہ احباب میں کئی لوگ ہیں جنہوں نے اسی گاڑی سے ڈرائیونگ کا آغاز کیا تھا۔لیکن 80 کی دہائی کے وسط اور 90 کی دہائی کے اوائل میں ان کی جانب سے مارکیٹ کے بڑے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی گاڑیاں سامنے نہ پیش کی جاسکیں۔ اس زمانے میں کرولا نے کافی دھوم مچا رکھی تھی۔ رہی سہی کسر ہونڈا کی آمد نے پوری کردی۔ جب پاکستان میں مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری کا آغاز ہوا تو نسان گندھارا لمیٹڈ کوئی بھی ایسی گاڑی متعارف نہ کرواسکی جو صحیح معنی میں کرولا اور سِوک کا مقابلہ کرسکے۔ نسان سنی سے کافی امیدیں لگائی گئیں لیکن وہ بھی اس پائے کی گاڑی نہیں کہی جاسکتی۔ گو کہ نسان کی گاڑیاں اچھی تھیں لیکن ان میں وہ بات شامل نہیں تھی جو پاکستانیوں کو کرولا اور سوک سے منہ موڑنے پر مجبور کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نسان اور رینالٹ کی نئی گاڑیاں متعارف کروانے سے متعلق گفتگو

سال 1995ء میں گندھارا نسان کے کارخانےمیں B14 سنی کی تیاری کا آغاز ہوا جو 2001 تک جاری رہا۔ ہونڈا ایٹلس نے سال 1994ء میں سِوک کی پانچویں جنریشن متعارف کروائی۔ یوں سنی کے مقابلے میں کرولا اور سِوک دونوں ہی زبردست گاڑیاں تھیں لہٰذا نسان کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ بعد ازاں گندھارا نسان کی جانب سے آخری کوشش کے طور پر N16 سنی (سیلفی) پیش کی۔ یہ 2005 سے2012 تک دستیاب رہی۔ N16 دراصل جاپان میں نسان پلسار کے متبادل کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ جاپان میں یہ 2000 سے 2005 تک پیش کی جاتی رہی تاہم دیگر ممالک میں اسے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ 2008 تک فروخت کیا جاتا رہا۔

95 nissan sunny 1995_Toyota_Corolla 1995-Honda-Civic

سال 1996-97 میں گندھارا نے 599 گاڑیاں جبکہ 1997-98 میں 933 گاڑیاں تیار کیں۔ اس کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل تنزلی جاری رہی حتی کہ 2004-05 میں صرف ایک ہی گاڑی فروخت ہوئی۔ شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ اکیلا خریدار کون تھا؟

خیر، یہ تو ماضی کی باتیں ہیں۔ آج پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے کی صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ گزشتہ مالی سال سے نہ صرف مقامی کار ساز اداروں کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ گاڑیوں کی درآمدات میں بھی تیزی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر لکی کار سازاداروں کے نمائندے پاکستان میں اپنی مصنوعات پیش کرنے کے لیے حکومتی اہلکاروں سے رابطے میں ہیں۔ اسی اثنا میں رینالٹ کی پاکستان میں دلچسپی سے متعلق بھی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ شاید بہت سے قارئین جانتے ہوں کہ رینالٹ اور نسان عامی سطح پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نسان بھی اپنے کارخانے دوبارہ کھولنے سے متعلق بھی سوچ و بچار میں مصروف ہے۔ پھر خبر موصول ہوئی کہ نسان کو کارخانے دوبارہ کھولنے کے لیے خصوصی رعایت دیئے جانے کا امکان ہے۔ بعد ازاں وضاحت آئی کہ تمام ہی اداروں کو دوبارہ کام کرنے پر رعایت دی جائی گئی۔ بہرحال، اس سے فائدہ تو گندھارا ہی کو حاصل ہوگا جو نسان جاپان کے مقامی سہولت کار ہیں۔ کِیا اور ہیونڈائی کا بھی کارخانہ یہاں موجود ہے جو استعمال نہیں کیا جاسکا۔

Nissan_Sunny_N16

اب تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ نسان پاکستان کی نئی آٹوپالیسی کی آمد اور نفاذ کا انتظار کر رہا ہے۔ گو کہ انہوں نے پاکستانی صارفین کے لیے کچھ چیزیں چھپا کر رکھی ہیں لیکن وہ آٹوپالیسی کے بعد ہی منظر عام پر لائی جائیں گی۔ ان میں 5 دروازوں والی ہیچ بیک ‘ڈاٹسن GO’ بھی شامل ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق نسان کی انتظامیہ کارخانوں کو دوبارہ کھولنے پر ملنے والی رعایت کی تصدیق کی منتظر ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی مارکیٹ میں نئے ماڈل کی گاڑیاں پیش کرنے پر انہیں کیا کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ جاپان سے گاڑیوں کی درآمدات میں اضافے نے بھی مقامی کار ساز اداروں کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ گو کہ دیگر ممالک سے بھی گاڑیاں درآمد کی جارہی ہیں تاہم جاپان ان ممالک میں سرفہرست ہے۔ یورپی کار ساز اداروں جیسے فیات اور ووکس ویگن بھی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمدات میں کمی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی منتظر ہیں۔ ہونڈا ایٹلس نے پچھلے ماہ HR-V 2016 متعارف کروا کر جاپان سے درآمد کی جانے والی وِزل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی و ناکام کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہونڈا HR-V پاکستان میں متعارف کروادی گئی

نئی ڈاٹسن ہیچ بیک کا ذکر ہوا ہے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈاٹسن GO دراصل 5 نشستوں والی گاڑی ہے جبکہ ڈاٹسن GO+ درحقیقت 7 نشستوں والی MPVہے۔ نسان نے 1986 میں ڈاٹسن کا نام استعمال کرنا بند کردیا تھا تاہم 2012 میں GO کی پیش کش کے ساتھ ایک بار پھر ڈاٹسن کے دور کا آغاز ہوا۔ ڈاٹسن GO بھارت، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ میں فروخت کی جارہی ہے۔ اندر سے یہ نسان مِکرا ہی ہے لیکن انداز میں اس سے قدرے بہتر ہے۔

اسی طرح نسان نے GO+ کے نام سے زیادہ حجم والی گاڑی بھی پیش کی۔ چھوٹی گاڑی کے برعکس اسے مختلف کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نسان ان دونوں ہی گاڑیوں کو پاکستان میں پیش کرنے کا ارادہ دکھتی ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آٹو پالیسی میں ایسے اداروں کو راغب کرنے کے لیے کیا مراعات شامل کی جاتی ہیں جو پہلے بھی پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں۔ اگر نسان واقعی یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کی ڈاٹسن GO کا براہ راست مقابلہ سوزوکی سوِفٹ اور سلیریو سے ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار گندھارا مکمل تیاری کے ساتھ سامنے آئے گی۔

پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے کا مستقبل آٹو پالیسی سے جڑا ہے۔ ایک عام پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم صرف اس کا انتظار ہی کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا یہ انتظار جلد ختم ہوگا اور ہم نئی گاڑیوں کو اپنی سڑکوں پر رواں دواں دیکھ سکیں گے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.