یورو معیارات اور پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت

1 221

کچھ ہفتوں قبل ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں کام کرنے والی پیٹرولیم کمپنیاں اپنے کارخانوں کو بہتر اور دور جدید سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 500 ملین ڈالر سرمایہ کاری کر رہی ہیں جس سے یورو 2 معیار کا ایندھن حاصل ہوگا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاک-ارب ریفائنری کمپنی (پیپکو) نے اس پیش رفت میں حصہ نہیں لیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں پہلے ہی یورو 2 ایندھن استعمال کرنے والے انجن لگے ہیں جس کی ایک مثال ہونڈا CG125 موٹر سائیکل سے لی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پیش کی جانے والی تمام گاڑیاں بھی ‘کیٹیلکٹ کنورٹر‘ کی حامل ہیں جس کے بارے میں آپ مفصل مضمون یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یورو ریٹنگ کا اثر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یورو ریٹنگ کا تعلق آپ کی گاڑی سے نکلنے والے دھوئیں سے ہے۔

اگر آپ لفظ یورو سے سمجھ رہے ہیں کہ کہ اس کا یورپی یونین سے تعلق ہے تو یہ بات درست ہے۔ یورو ریٹنگ گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے متعلق یورپی یونین کے قوانین ہیں۔ یہ عام مسافر گاڑیوں اور کاروباری استعمال کی ہلکی گاڑیوں پر لاگو کیا جاتا ہے جس کا مقصد گاڑی سے نکلنے والے دھویں سے ہونے والی فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ یورو ریٹنگ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اس کی شروعات 1970 میں کی گئی جب پہلی بار مسافر گاڑیوں کے لیے European exhaust emissions standard جاری کیا گیا۔ بعد ازاں ان اصولوں کو بہتر بنانے اور یورو 1 پیش کرنے میں 22 سال کا عرصہ لگا۔

ہم ماضی کی تاریخ میں جائے بغیر آپ کو براہ راست یورو 1 اور اس کے بعد آنے والی مختلف ریٹنگ کے حوالے سے بتائیں گے۔ دیگر تکنیکی تفصیلات میں جانے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان میں اس وقت یورو 2 لانے کی “کوشش” کی جا رہی ہے جبکہ بھارت میں یورو 4 آ بھی چکا ہے اور یورپ تو اس وقت یورو 6 ریٹنگ پر موجود ہے۔

یورو 1

یورو 1 یا EC93 جولائی 1992ء میں متعارف کروایا گیا اور جنوری 1993ء کے بعد بننے والی گاڑیوں پر اسے لاگو کردیا گیا۔ یورو 1 کے لیے پیٹرول پر چلنے والی تمام گاڑیوں میں کیٹیلیٹک کنورٹر درکار ہوتا ہے جس سے کاربن مونو آکسائیڈ (CO) کا اخراج کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

euro 1

یورو 2

یورو 2 یا EC96 جنوری 1996ء میں سامنے آیا اور اگلے سال یعنی جنوری 1997ء سے تیار ہونے والی گاڑیوں پر لاگو ہوا۔ یورو 2 میں کاربن مونو آکسائیڈ (CO) کے اخراج میں کمی کو مزید بہتر بنایا گیا اور ساتھ ہی ایسے ہائیڈرو کاربن کے استعمال کو کم کیا جو جلنے سے رہ گیا ہو۔ اس کے علاوہ نائیٹروجن آکسائیڈ (NOx) کی بھی حد متعین کی گئی۔ یہ پیٹرل اور ڈیزل دونوں پر چلنے والی گاڑیوں کے لیے تھا۔

euro 2

یورو 3

یورو 3 یا EC2000 جنوری 2000ء میں لاگو کیا گیا اور جنوری 2001ء میں اس کے مطابق گاڑیوں کی تیاری شروع کی گئی۔ کاربن مونو آکسائیڈ کے اخراج کو مزید کم کرنے کے ساتھ انجن کی حرارت کے وقت کو بھی مختصر کیا گیا۔ اس ریٹنگ میں نائیٹروجن آکسائیڈ کے اخراج کے لیے ڈیزل اور پیٹرول گاڑیوں علیحدہ قوانین بنائے گئے۔

euro 3

یورو 4

یورو 4 جنوری 2005ء میں پیش کیا گیا جس کے مطابق گاڑیاں جنوری 2016ء سے آنا شروع ہوئیں۔ اس بار ڈیزل انجن کے اخراج اور نائیٹروجن آکسائیڈ ()کو کم کرنے پر زیادہ توجہ رکھی گئی۔ یورو 4 سے مطابقت رکھنے والی چد یورپی ڈیزل گاڑیوں میں بھی مخصوص ڈیزل فلٹر لگایا گیا۔

euro 4

یورو 5

گو کہ یورو 5 کے مطابق گاڑیوں کی تیاری جنوری 2011 سے شروع ہوئی تاہم یہ ستمبر 2009ء میں متعارف کروایا گیا تھا یورو 4 کی طرح اس میں بھی ڈیزل انجن کے اخراج میں کمی پر توجہ مرکوز رہی۔ پرانی گاڑیوں کو یورو 5 معیار کے مطابق بنانے کے لیے مخصوص فلٹر بھی لازمی قرار دے دیے گئے۔

euro 5

یورو 6

یورو 6 ستمبر 2014ء میں پیش کیا گیا اور ستمبر 2015ء سے بننے والی تمام گاڑیوں کے لیے اسے لازمی قرار دے دیا گیا۔ یورو 6 میں ڈیزل انجن کے اخراج کو مزید کم کیا گیا۔ علاوہ ازیں ڈیزل کے اخراج کو یورو 5 کے مقابلے میں 67 فیصد کم کرنے کا ہدف رکھا گیا۔

euro 6

یاد رہے کہ یورو 6 ریٹنگ پر عمل کرنا تکنیکی اعتبار سے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جب آپ نائیٹروجن آکسائیڈ کو کم کرتے ہیں تو ڈیزل کے مادے میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان اور یہاں موجود گاڑیوں کی صنعت کتنا پیچھے رہ گئی ہے۔ ہماری کرولا اور سوک یورو 2 کے مطابق ہیں اور اگر انہیں یورو 2 ایندھن کے ساتھ استعمال کیا جائے تو نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر رہے گی بلکہ فضائی آلودگی بھی کم کی جاسکے گی۔ جی ہاں! وہی فضا جہاں میں اور آپ سانس لیتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.