گاڑیاں جلانے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کا افسوس ناک رجحان

2 177

ایک وقت تھا کہ شہر قائد کو اس کی رنگارنگی اور ملی یکجہتی کی وجہ سے ‘منِی پاکستان’ کہا جاتا تھا۔ پھر نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی۔ قومی وحدت کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی۔ لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹیں چھین لی گئیں اور اخبارات میں آئے روز لاٹھیاں چلنے کی خبریں آنے لگیں۔ وقت کے ساتھ لاٹھیوں کی جگہ پستول اور بموں نے لے لی۔ شہر کی عام عوام کے لیے ذہنی کوفت اور اذیت کا یہ سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا اور اس شہر کے ذمہ داران خواب غفلت میں پڑے رہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی بم دھماکہ ہوجائے، کوئی سیاسی لیڈر حملے میں جاں بحق ہوجائے، حتی کہ یورپ کے کسی چھوٹے سے ملک میں کوئی توہین آمیز خاکہ یا فلم شائع ہوجائے، سب سے پہلی شامت کراچی ہی کی آتی تھی۔ آئے روز کی ہڑتالوں، سیاسی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دہشت گردی کے واقعات اور پھر ان کے ردعمل کے طور پر گاڑیوں کو نظر آتش کرنا ، عوامی املاک اور کاروباری مراکز کو نقصان پہنچانا عام سی بات بن گئی۔

Cars-burned-at-Napier-road-Karachiدہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے گزشتہ سال کراچی کو پاکستان کے دس خطرناک ترین شہروں میں چوتھا نمبر دیا گیا۔ پھر شہر کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لیے آپریشن شروع ہوئے جن سے حالات میں بہتری نظر آئی لیکن عام لوگوں کی پرتشدد سوچ اور قانون و انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر ان کا اعتماد بحال نہیں کیا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے باوجود کراچی کا عام اپنی جان و مال کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔

یہ بھی دیکھیں: افراتفری کی بدترین مثال: عام شہری اور پولیس اہلکار گتھم گتھا ہوگئے

گزشتہ روز ا س کی ایک اور عملی مثال ہمارے سامنے آگئی۔ گلشن کے علاقے راشد منہاس روڈ پر ایک ٹریفک حادثہ ہوا جس میں ایک لینڈ کروزر (Toyota Land Cruiser) نے مبینہ طور پر موٹر سائیکل کو ٹکر ماری جس سے موٹر سائیکل پر سوار جس سے چھ سالہ بچی زخمی ہوگئی۔ وہاں موجود دیگر افراد نے لینڈ کروزر کو روکنے کی کوشش کی تاہم ڈرائیور نے لوگوں میں بڑھتے ہوئے اشتعال سے محفوظ رہنے کے لیے راہ فرار اختیار کی۔ تاہم ملینیم مال کے مقابل سڑک پر شدید ٹریفک جام کی وجہ سے زیادہ دور نہ جاسکا اور مشتعل افراد نے لینڈ کروزر کو جالیا۔ ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بھی جب لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو انہوں نے لینڈ کروزر کو آگ لگادی۔

یہ واقعہ چند لمحوں میں نہیں ہوا بلکہ گاڑی اور موٹر سائیکل کے تصادم کے بعد جائے وقوعہ سے گاڑی بھگانے کی کوشش اور اسے کچھ فاصلے پر روکے جانے میں اچھا خاصہ وقت لگا۔ تاہم پولیس اس تمام تر واقعے سے لاعلم رہی حتی کہ کسی مہربان نے انہیں فون کر کے معاملات سنبھالنے کی درخواست نہ کی۔ واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد ایس ایچ او شارع فیصل محمد خان لودھی سمیت پولیس کی نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اور ڈرائیور کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس وقت تک لینڈ کروزر مکمل طور پر نظر آتش ہوچکی تھی اور اگر پولیس کی آمد میں مزید تاخیر ہوتی تو کوئی بعید نہیں کہ لوگ ڈرائیور حماد عامر بخش کو بھی “عبرت کا نشان” بنا دیتے۔

پھر کیا ہوا؟ ٹیلی ویژن چینلز پر بریکنگ نیوز کے ساتھ سرخ پٹیاں چلنے لگیں، سوشل میڈیا پر لوگوں نے دھڑا دھڑ شیئر کرنا شروع کردیا، باقی شہر کو ریڈیو پر چلنے والی گھنٹہ وار خبروں سے واقعہ کا علم ہوا کہ مشتعل ہجوم نے لینڈ کروزر کو آگ لگادی۔ آج کے اخبارات میں بھی کسی کونے میں اس واقعے کی خبر موجود ہوگی جسے لوگ دیکھیں گے، پڑھیں گے، افسوس کا اظہار کریں گے اور صفحہ پلٹ دیں گے۔

واقعے کے بعد لوگوں کی جانب سے بلاتحقیق انصاف کرنے اور متعلقہ فرد یا اس کی گاڑی کو نقصان پہنچانے کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ کراچی کے مشہور کاروباری علاقے صدر میں بھی ایسا ہی منظر دیکھا جاچکا ہے۔ ٹویوٹا ہائی لکس ویگو (Toyota Vigo) میں بیٹھے بڑے صاحب نے جب ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری تو وہاں موجود شدید جذباتی عوام نے ویگو کو گھیرے میں لے کر اچھی خاصی درگت بنادی۔

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں میں شعور کی بتدریج کمی اور پرتشدد ذہنیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کوئی باشعور شہری گاڑی جلانے کا کیسے سوچ سکتا ہے؟ اور غصے میں خود پر قابو نہ بھی رکھ سکے تو املاک کا نقصان پہنچا کر کسی کو کیا حاصل ہوا؟ ماسوائے اس کے کہ لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں میں (چاہے وہ مہنگی اور پرتعیش ہوں یا کم قیمت گاڑیاں) سفر کو غیر محفوظ خیال کریں۔

پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ پچھلے کئی ماہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ لیکن گاڑیوں کی چوری میں ملوث جرائم پیشہ افراد اور اسے جان بوجھ کر نظر آتش کرنے والے لوگوں کے خلاف کاروائی نہ کیے جانے سے اس ترقی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ مذکورہ واقعات دیکھنے کے بعد لوگ ذاتی گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی کم ہوگی جس سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔

اپنی گاڑی کے لیے بہترین انشورنس پلان دیکھیں

اس شعوری نوعیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ عام شہریوں کو یہ سمجھنا اور دیگر کو سمجھانا چاہیے کہ گاڑیوں کو جلانا یا دیگر املاک کو نقصان پہنچانا کسی مسئلہ کا حل یا کسی معاملے کا انصاف نہیں ہے۔ اس سے کسی زخمی کی امداد ممکن ہے نہ ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔ خاص کر ایسے میں کہ جب ڈرائیور پکڑ لیا جائے تو پھر گاڑی کو نقصان پہنچانے سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ممکن بنانا ہوگا کہ شہریوں کی املاک بشمول مہنگی گاڑیوں، کاروباری مراکز اور بالخصوص رہائشی علاقوں کی حفاظت ممکن بنائے اور انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کوانصاف کے کٹہرے میں لے کر آئے۔ کل ہونے والے واقعے میں ملوث افراد کو روڈ پر لگے کیمروں کی مدد سے شناخت کیا جاسکتا ہے تو ان کے خلاف فی الفور کاروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی مشتعل گروہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.