2018 ہونڈا CG125: اب نئے “اسٹیکر” کے ساتھ!

0 801

پاکستان میں چینی سواریوں (بشمول گاڑیوں اور موٹر سائیکل) کی آمد آج کل سرخیوں میں ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ مقامی صارفین کی جانب سے بھی اسے سراہا بھی جارہا ہے۔ بہرحال، اس موضوع پر واپس پلٹتے ہیں اور بات کرتے ہیں پاکستانی موٹر سائیکل مارکیٹ کی۔ پچھلے چند ماہ میں کئی موٹر سائیکلوں جیسا کہ ہونڈا CB150F اور  سپر پاور آرکی 150 کے علاوہ روڈ پرنس ویگو 150 کی صورت میں صارفین کو متنوع مصنوعات پیش کی گئیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی موٹرسائیکلیں زیادہ تر لوگوں کے لیے “دکھاوے” اور “شو شا” ہی ہیں اور اکثر صارفین کے لیے جو موٹر سائیکل سب سے بہترین ہے، وہ صرف اور صرف ہونڈا CG125 ہی ہے۔

ایک ایسی موٹر سائیکل جسے صرف اس کا مالک ہی نہیں بلکہ چور اچکا بھی دل سے پسند کرتا ہے۔

ہر سال کی طرح، ایٹلس ہونڈا اپنی موٹر سائیکل کا نیا ماڈل پیش کرتی ہے تاکہ اس کی فہرست میں شامل موٹرسائیکلیں “اپ ٹو ڈیٹ” نظر آئیں۔

اپ ٹو ڈیٹ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟

برسوں پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ادارے نے اس سال بھی نئی 2018 ہونڈا CG 125 متعارف کروائی ہے۔ درحقیقت یہ 2017ء ماڈل ہی ہے لیکن اس کے اسٹیکر نئے ہیں۔ کیا یہ کافی ہیں؟ اجی یہ بھی بہت ہیں کیوں کہ 2012ء میں ہوا کھینچنے والے والو، سیاہ مفلر اور اس سے پہلے اگلے پہیوں پر بڑۓ ڈرم بریکس شامل کرنے کے بعد اس موٹر سائیکل میں ہر سال اسٹیکر ہی تو “اپ ٹو ڈیٹ” کیا جاتا ہے۔

2018 Honda CG125 PakWheels

یہ بھی پڑھیں: ایٹلس ہونڈا 100 ملین ڈالر سرمایہ کاری: کیا جدید بائیک کا خواب پورا ہوگا؟

تو پھر یہ اتنی زیادہ فروخت ہوتی کیوں ہے؟

ہونڈا CG 125 اپنی زور دار گھن گرج کے علاوہ جن اہم خصوصیات کی وجہ سے فروخت ہوتی ہے، وہ کچھ یوں ہیں:

برق رفتاری – اپنے انتہائی کم وزن یعنی صرف 99 کلوگرام اور OHV (اووَرہیڈ والو) انجن کے باعث یہ موٹر سائیکل 8 ہزار آر پی ایم پر 9.5 ہارس پاور سے دوڑ سکتی ہے۔

ہموار نشست – جو کہ ایک خاتون (اور ایک دو بچوں) کے ساتھ سفر کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

پائیداری – کئی سالوں سے اس موٹر سائیکل کو پاکستان میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ سڑک چھاپ ‘استاد’ سے لے کر ہونڈا کی 3S ڈیلرشپس تک، ہر کوئی اس کی مرمت باآسانی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی سڑکوں اور موسم کو برداشت کرنے کی قابلیت نے CG 125 کو ناقابل فراموش بنا دیا ہے۔

بہترین قدر – یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستانی صارفین کی نظر میں بعد از استعمال کی قدر کسی بھی دوسری خصوصیت سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ یہ حقیقت پاک ویلز کے آٹوموبائل انڈسٹری سروے سے بھی  صد فی صد ثابت ہوتی ہے۔

کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا!

1۔ زبردست فروخت سے انکار ممکن نہیں!

2016ء میں آٹوپالیسی پیش کیے جانے کے بعد سے پاکستان میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے شعبے کی رفتار میں تیزی واضح ہے۔ اس کی ایک تابندہ مثال پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران چھ نئی گاڑیوں کی پیشکش سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ گو کہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کا کردار بھی یہاں نمایاں ہے، تاہم یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ نئے سرمایہ کاری پہلے سے زیادہ جوش  اور ولولے کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے متوسط طبقے کو پہنچ رہا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے کہ جو اندرون شہر سفر کے لیے موٹر سائیکل کو سب سے زیادہ موزوں اور پسندیدہ سواری سمجھتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ موٹرسائیکلیں ایسے فروخت ہورہی ہیں کہ جیسے چنے بکتے ہیں!

موٹرسائیکل بنانے والے مقامی اداروں  کی فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے؛ یعنی ایک سال میں 16 لاکھ 30 ہزار سے زائد موٹرسائیکلیں فروخت کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ایٹلس ہونڈا سب سے آگے اور نمایاں ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ تن تنہا پوری مارکیٹ کی مانگ پوری کر رہا ہے۔ مشہور ہے کہ عدد جھوٹ نہیں بولتے اور یہ بات سچ ہے کہ لوگوں کے لاکھ اچھا برا کہنے کے باوجود ایٹلس ہونڈا اور اس کے صارفین کے لیے ہونڈا 125 ہی سب سے بہترین موٹرسائیکل ہے۔ بس، اس سے آگے کوئی ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ ادارے نے موٹر سائیکل کی فروخت میں 18.38 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے یعنی مالی سال 2015-16 میں 8,11,034 موٹرسائیکلوں کی فروخت  آئندہ مالی سال 2016-17 میں 9,60,105 تک جا پہنچی ہے۔

2۔ دلکشی سے انکار ممکن نہیں!

پچھلے کئی سالوں کے دوران پاکستانی صارفین کو کئی بہترین موٹرسائیکلیں پیش کی گئی ہیں جن میں یاماہا RX115، ہونڈا روڈماسٹر، کاواساکی GTO 125 وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان ناموں میں ایک چیز متفرق رہی اور وہ ان کا اختتام ہے۔ ہونڈا CG-125 پھر بھی اپنی جگہ پر مسلم ہے اور وہ بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ۔ میرے ساتھی لکھاری وقار احمد کہتے ہیں؛

دو پہیوں والی سواریوں میں آپ کی پہلی محبت۔ اور صرف آپ ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت  اسے اپنانا چاہتی ہے۔ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ جی ہاں، ہونڈا CG 125۔

مزید پڑھیں: ہونڈا CG 125 –  پاکستانیوں کی شاہانہ سواری

آپ اس پرتنقید کرسکتے ہیں، اس کا مزاق اڑا سکتے ہیں، لیکن اس کی دلکشی سے انکار نہیں کرسکتے۔

3۔ ہونڈا CG 125: زمانہ قدیم کی موٹر سائیکل یا پھر لافانی علامت؟

زبان خلق کو نقارہ خدا جانو کے مصداق حتمی فیصلہ تو صارف کا ہی مانا جاتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے نئی مصنوعات کے لیے ایک مشکل منڈی رہی ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں میں تبدیلی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو:

ہونڈا CG 125 پاکستانی صارفین کی ایک استعارہ بن چکی ہے

ہم، پاکستانی سستے مال کو ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ آج سے 100 سال پرانہ ہی کیوں نہ ہو۔ یاماہا YBR، روڈ پرنس ویگو 150، آرکی 150 اور ہونڈا CB 150F دکھنے میں اچھی لگتی ہیں تاہم ہمارے مقامی مکینکس کے ہاتھوں برباد ہوجاتی ہیں۔ چونکہ ان میں سے کچھ تیار شدہ حالت میں درآمد کی جاتی ہیں اور کچھ بالکل نئی ٹیکنالوجی کی حامل موٹر سائیکلیں ہیں اس لیے ان کی مرمت وغیرہ اتنی سستی نہیں۔ نتیجتاً یہ اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہیں۔ جی جی، آپ یہاں یاماہا پاکستان کی اس کوشش کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں وہ نئی موٹر سائیکلوں کی پیشکش کے ساتھ مقامی مکینکس کو تربیت بھی دے رہے ہیں، تاہم اس قابل تعریف اقدام کے نتائج آنے میں خاصی وقت لگے گا اور طویل عرصے بعد اس کے ثمرات موٹر سائیکل کی فروخت میں ظاہر ہوں گے۔ فی الوقت ہم پاکستان میں موٹر سائیکل کے عام خریدار کی طرح سوچیں تو:

1۔ یاماہا YBR کو کسی عام ‘استاد’ یا پھر ‘مستری’ کے پاس لے جانا کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کیوں کہ اس کی مرمت میں خاص مہارت درکار ہوتی ہے۔

2۔یہ بات درست ہے کہ YBR نے ترکی، روس، ارجنٹینا جیسے ممالک میں اپنا لوہا منوایا ہے تاہم اس کےانتہائی مہنگے پرزوں کی قیمت کم کیے جانا ضروری ہے تاکہ مزید صارفین کو متوجہ کیا جاسکے۔

ان دیگر موٹر سائیکلوں (روڈ پرنس ویگو 150، آرکی 150 اور ہونڈا CB 150F) جن کا میں نے اوپر ذکر کیا، اپنی بہت زیادہ قیمت کے باعث لوگوں میں مقبولیت حاصل نہیں کرپائیں گی۔ سچ کہوں تو میں مہنگی منٹی نینس کا حامی ہوں کیوں کہ اسی سے صارف  اپنی اور دوسرے کی چیز کی قدر کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے پہلے مالی نقصان کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔

موٹربائیک کا عاشق ہونے کے ناطے میں ایٹلس ہونڈا کی اس حکمت عملی کو بخوبی سمجھتا ہوں جس کے تحت وہ انتہائی کامیاب موٹرسائیکل کو تبدیل کرنے پر رضامند نہیں، لیکن یہاں میں ایک چیز سے برملا اختلاف کرنا چاہوں گا کہ پرانے وقتوں کی جیسی تیسی موٹر سائیکل پیش کرنا بالکل درست نہیں۔ برانڈ کی قدر و قیمت اپنی جگہ لیکن فلپائن میں ہونڈا CG 125 کی ہم منصب “ہونڈا TMX 125 ایلفا” کی مثال  سامنے رکھی جانی چاہیے۔ ہونڈا TMX 125 ایلفا میں انجن کِل سوئش، برقی اور کِک اسٹارٹ، اسٹیئرنگ کا وزن، ڈِپر اور دوسرے شاک آبزرور کے لیے جگہ بنائی گئی ہے جبکہ ہونڈا CG 125 میں اس قسم کی کوئی بھی خصوصیت موجود نہیں۔ تو کیا ہم ایٹلس ہونڈا کی فروخت میں کمی کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ جی نہیں۔ البتہ یہ امر  موٹرسائیکل بنانے والے دیگر اداروں کو موقع دے گا کہ وہ اس کا فائدہ اٹھائی اور منڈی میں بہتر مصنوعات کے ساتھ اپنی جگہ بنائیں۔

فلپائن میں فروخت کی جانے والی ہونڈا TMX 125 کا تعارف ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

Honda TMX 125

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.