راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کی سڑکوں پر چنگچی رکشوں پر پابندی لگانے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ کریک ڈاؤن دو مرحلوں میں ہو گا، جس میں پہلے مینوفیکچرنگ فیکٹریوں کو دیکھا جائے گا نشانہ بنایا جائے گا اور ان رکشوں پر مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا۔
پنجاب کے نگراں وزیر ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد نے غیر قانونی مینوفیکچرنگ اور ریگولیشن کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے چنگچی رکشوں پر پابندی سے متعلق حکومتی فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام غیر منظور شدہ رکشوں کو ختم کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس میں ابتدائی طور پر 30 دن کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔
کریک ڈاؤن کا آغاز
نگراں وزیر حسن مراد نے غیر قانونی موٹر سائیکل اور لوڈر رکشہ تیار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے پر زور دیا۔ اس دوران زیادہ توجہ غیر منظور شدہ رکشوں پر ہے تاکہ مستقبل میں مقامی مینوفیکچرنگ پر پابندی اور رکشہ مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی ریگولرائز کیا جائے۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ، ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، سٹی ٹریفک پولیس، سپیشل برانچ اور ڈسٹرکٹ پولیس جیسے مختلف محکموں کو اکٹھا کرکے بااختیار ٹیمیں تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ ٹیمیں مینوفیکچرنگ یونٹس کے خلاف کارروائی کریں گی اور موٹرسائیکل رکشوں پر پابندی کو نافذ کریں گی۔
پہلے مرحلے میں مینوفیکچرنگ فیکٹریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن کا مقصد چنگچی رکشوں کی پیداوار کو روکنے کے لیے انہیں سیل کرنا ہے۔ پولیس اہلکاروں کو کسی بھی غیر منظور شدہ رکشوں کو ضبط کرنے کے لیے مختلف پوائنٹس پر تعینات کیا جائے گا اور ڈرائیوروں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری ارشد علی نے کہا کہ وہ پنجاب حکومت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ موٹرسائیکل رکشوں کو ختم کرنے کے لیے ایک متبادل پالیسی بنائی جا رہی ہے۔
اس کریک ڈاؤن پر آپ کے کیا خیالات ہیں؟ کیا کوئی متبادل فراہم کیے بغیر صوبے بھر میں چنگچی پر پابندی لگانا عملی ہے یا سڑکوں پر غیر رجسٹرڈ چنگ چی رکشے اتنے بڑے خطرے کا باعث ہیں کہ یہ کریک ڈاؤن کیا جائے؟ کمنٹس سیکشن میں ہمیں بتائیں۔