کئی مہینوں تک وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی اور انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن کے مابین الیکٹرک وہیکل پالیسی کی تیاری پر ڈیڈلاک تھا۔
الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی مستقبل میں ہمارے سفر کے طور طریقوں کو تبدیل کرنے کے لیے ہے۔ البتہ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران پاکستان کے آٹوموٹو سیکٹر کو سخت تحفظات تھے کہ جب وفاقی کابینہ نے چند شرائط کے ساتھ اس پالیسی کا مسودہ منظور کر لیا۔ یہ پالیسی مسودہ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے وفاقی کابینہ کو دیا گیا تھا جس کے لیے انڈسٹریز ڈویژن سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔
مشیر تجارت بھی کابینہ کے اس اجلاس میں حاضر نہیں تھے کہ جس نے اس پالیسی مسودے کی منظر دی۔ یوں ان کا نقطہ نظر بھی نہیں لیا گیا تھا۔
مقامی آٹو سیکٹر نے عدم مشاورت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کو EV پالیسی ترتیب دینے سے پہلے صنعت کے اہم اسٹیک ہولڈرز سے کرنی چاہی تھی۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ EV پالیسی تبدیل ہوگی اور اس میں ان اسٹیک ہولڈرز کی سفارشات کو بھی شامل کیا جائے گا۔
حال ہی میں وفاقی کابینہ نے EV پالیسی بنانے کا اختیار انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن کو دیا ہے۔ مقامی آٹو سیکٹر کی جانب سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کی مداخلت پر بھی تنقید کی گئی۔
اہم اسٹیک ہولڈرز نے زور دیا کہ EV پالیسی انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن کے دائرہ اختیار میں ہونی چاہیے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نہیں۔ انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن پہلے ہی پاکستان میں آٹو سیکٹر کی کئی پالیسیوں کے مسودے تیار کرکے ان کا کامیابی سے نفاذ کر چکا ہے۔
ان میں سب سے مشہور آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-2021ء ہے۔ اس پالیسی نے کئی بین الاقوامی اداروں کے لیے دروازے کھولے۔ چند اہم ادارے جیسا کہ کِیا اور ہیونڈائی اسی پالیسی کی بدولت ملک میں داخل ہوئے۔
رولز آف بزنس 1972ء کے مطابق انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن ڈویژن صنعتی پالیسیوں کا مسودہ بنانے اور اس کے نفاذ کا اختیار رکھتا ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی نہیں۔ اس بنیاد پر وفاقی کابینہ نے زور دیا کہ EV پالیسی کی تشکیل انڈسٹریز ڈویژن کی ذمہ داری ہے۔ گو کہ رولز آف بزنس براہِ راست EV پالیسی سے رجوع نہیں کرتے، اس لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ معاملات انڈسٹریز ڈویژن کے پاس رہیں۔
قبل ازیں انڈسٹریز ڈویژن نے متعدد اجلاس کیے تھے کہ جن میں وزارت موسمیاتی تبدیلی، پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA)، ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) اور آٹو انڈسٹری ڈیولپمنٹ کمیٹی (AIDC) کے نمائندگان شامل تھے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ ایک ایسی موزوں EV پالیسی کا مسودہ تیار کرنے میں تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کے خیالات اور سفارشات پیش کرنےکا موقع ملے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔
وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ دیگر بیشتر ممالک میں EV پالیسی وزارتِ موسمیات بناتی ہے۔ اس نے مزید زور دیا کہ EV پالیسی کے لیے انڈسٹریز ڈویژن کی جانب سے کوئی قوم نہیں اٹھایا گیا تھا؛ اس لیے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے EV پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کے لیے قدم اٹھایا اور اسے وفاقی کابینہ سے منظور کروایا۔ مزید برآں، وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس نے EV پالیسی کا بیشتر کام خود کیا ہے، اس لیے یہ معاملہ بدستور وزارت کے تحت ہی رہنا چاہیے۔
انڈسٹریز ڈویژن کا کہنا ہے کہ گو کہ الیکٹرک گاڑی میں بیٹری ہوتی ہے، لیکن اس سے ہٹ کر دیکھیں تو وہ ایک عام کار جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں قائدانہ کردار انڈسٹریز ڈویژن کو ملنا چاہیے۔ وفاقی کابینہ نے مختلف سرکاری اداروں کے درمیان اِس رسہ کشی کا خاتمہ کرتے ہوئے فیصلہ انڈسٹریز ڈویژن کے حق میں کیا۔
پاک سوزوکی اور ہونڈا اٹلس نے آئندہ الیکٹرک اینڈ ہائبرڈ وہیکل پالیسی 2020-25ء کے لیے اپنی سفارشات انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) کو دی ہیں۔ پاک سوزوکی نے EDB کو مشورہ دیا ہے کہ وہ COVID-19 بحران کی وجہ سے اپنی پالیسی کو ایک مزید سال کے لیے مؤخر کرے۔
آٹو سیکٹر کروناوائرس کی عالمگیر وباء، افراطِ زر، طلب میں آنے والی کمی اور روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ کی وجہ سے پہلے ہی مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ اس نازک مرحلے پر متعلقہ حکام کو EV پالیسی جلد از جلد تیار کرنا ہوگی اور اس میں تمام ضرور اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔ یوں ایسی EV پالیسی بنے گی جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی اور وسائل کا ضیاع نہیں ہوگا۔
EV پالیسی اور آٹو سیکٹر کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں مزید خبروں کے لیے آتے رہیے۔ EV پالیسی پر اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔