حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں ایک نئی پالیسی تجویز کے بارے میں کافی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں جس کے تحت کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جا سکتی ہے – یہ ایسا اقدام ہے جو پہلے کبھی سرکاری طور پر نہیں کیا گیا۔ اس اعلان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور کار ڈیلرز میں بیک وقت جوش و خروش اور الجھن پیدا کر دی ہے۔ لیکن پس پردہ اصل معاملہ کیا ہے؟ کیا یہ کوئی حقیقی اصلاحات ہیں، یا صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لیے ایک پالیسی حربہ؟
اس کا جواب دینے کے لیے، ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں استعمال شدہ کاروں کا موجودہ امپورٹ سسٹم کیسے کام کرتا ہے – اور نئی کمرشل امپورٹ کی تجویز کا اس سے کیا موازنہ ہے۔
گاڑیوں کی درآمد کی موجودہ سکیمیں
پاکستان میں استعمال شدہ درآمد شدہ گاڑیوں کو لانے کے لیے پہلے سے ہی ایک طے شدہ نظام موجود ہے، لیکن یہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے محدود ہے۔ تین سرکاری سکیمیں ہیں:
- بیگیج سکیم (Baggage Scheme)
- گفٹ سکیم (Gift Scheme)
- ٹرانسفر آف ریزیڈنس (Transfer of Residence – TR)
یہ کمرشل ذرائع نہیں ہیں۔ انہیں ذاتی استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی مخصوص شرائط کے تحت گاڑیاں ملک میں بھیج سکتے ہیں یا لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی سال بیرون ملک گزارنے کے بعد وطن واپس آنے والا پاکستانی TR سکیم کے تحت گاڑی لا سکتا ہے، جبکہ دوسرے لوگ اپنے رشتہ داروں کو تحفے میں کار بھیجنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
ان سکیموں کے تحت:
- کار 3 سال سے زیادہ پرانی نہیں ہونی چاہیے۔
- جیپ 5 سال تک پرانی ہو سکتی ہے۔
- درآمد کنندہ کو ڈپریسیشن (قیمت میں کمی) کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ گاڑی جتنی پرانی ہوگی، کسٹم ڈیوٹی اتنی ہی کم ہوگی۔
نئی تجویز: استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد
حکومت اب ایک تبدیلی پر غور کر رہی ہے – پہلی بار، وہ شو رومز اور ڈیلرشپس کو کمرشل بنیادوں پر گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے:
- کاروبار (افراد نہیں) استعمال شدہ کاروں کے آرڈر دے سکیں گے۔
- کسی اوورسیز سٹیٹس یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی – صرف ایک رجسٹرڈ ڈیلرشپ کافی ہوگی۔
- ادائیگیاں سرکاری بینکنگ چینلز کے ذریعے کی جائیں گی۔
کاغذوں پر، یہ کار امپورٹ پالیسی کی ایک اہم لبرلائزیشن (آزادی) کی طرح لگتا ہے۔ یہ مارکیٹ کو کھول سکتا ہے، دستیابی میں اضافہ کر سکتا ہے، اور مقابلے کی وجہ سے شاید قیمتیں بھی کم کر سکتا ہے۔ لیکن یہ صرف اوپری سطح کی تصویر ہے۔
ڈپریسیشن کا مسئلہ
یہاں چیزیں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔
موجودہ گفٹ، بیگیج، اور TR سکیموں کے تحت، کسٹم ڈیوٹی گاڑی کی عمر کی بنیاد پر ڈپریسیشن کے ذریعے کم کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک 3 سال پرانی کار 60% تک ڈپریسیشن سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، جس سے درآمدی ڈیوٹی کے لحاظ سے یہ نمایاں طور پر سستی ہو جاتی ہے۔ تاہم، نئی مجوزہ پالیسی کے تحت کمرشل درآمدات پر ایسا کوئی ڈپریسیشن لاگو نہیں ہوتا۔
آئیے اسے مزید سمجھتے ہیں:
- گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی گئی تین سال پرانی کار کو ذاتی تحفہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی ڈکلیئرڈ ویلیو (اظہار شدہ قیمت) عمر کی بنیاد پر کم کی جاتی ہے، اور کم شدہ قیمت پر ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔
- اس کے برعکس، اگر وہی کار کسی شو روم کے ذریعے کمرشل درآمد کے طور پر درآمد کی جاتی ہے، تو کوئی ڈپریسیشن نہیں ہوتا۔ گاڑی کی مکمل تخمینہ شدہ قیمت پر مکمل کسٹم ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا قیمت کا عدم توازن پیدا کرتا ہے۔ جب موجودہ سکیموں کے ذریعے پیسے بچائے جا سکتے ہیں تو کوئی کمرشل راستہ کیوں اختیار کرے گا؟ آخر میں، جب تک ڈپریسیشن کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا اور ڈیوٹی کے ڈھانچے کو مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق نہیں کیا جاتا، یہ کمرشل درآمدی پالیسی ایک حقیقی اصلاح سے زیادہ ایک علامتی gesture (اشارہ) ثابت ہو سکتی ہے۔