پاکستان کی ڈوبتی معاشی نبض نے موجودہ حکومت پر زور دیا کہ وہ کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو روکے، جس کے نتیجے میں ایل سیز پر پابندی لگائی گئی۔ جہاں اس اقدام نے کار کے شعبے سمیت ملک کی صنعت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ امیر طبقے کا موجودہ معاشی بدحالی اور لگائی جانے والی پابندیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
امیر طبقہ مرسڈیز، فیراری اور بی ایم ڈبلیو جیسی گژری کاریں درآمد کرنے میں مصروف ہے۔ ڈبلیو سی سی ایف ٹیک کے مالک اور سی ای او عبداللہ سعد نے اپنی ٹویٹس میں ان اعلیٰ درجے کی لگژری گاڑیوں کی فہرست شائع کی جو مئی اور دسمبر 2022 کے درمیان درآمد کی گئیں۔
Given Pak's precarious economic condition, these purchases / LCs are absolutely amazing. pic.twitter.com/MmYxV5zXu9
— Abdullah Saad (@kursed) January 18, 2023
مزید یہ کہ سعد کی ٹویٹس سے کچھ حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں ملک کی بندرگاہوں تک پہنچ چکی ہیں۔ کچھ کلیئر ہو چکے ہیں جبکہ دیگر کلئیر ہونا باقی ہیں۔
Just keep watching. pic.twitter.com/cpaVc0QuSV
— Abdullah Saad (@kursed) January 18, 2023
ان ٹویٹس کے آخر میں درآمد کی گئی کروڑوں روپے لاگت کی دو فیراری گاڑیوں کی معلومات بھی دی گئی ہی اور حیران کن طور پر یہ تمام معلومات موجودہ حکومت نے خود شئیر کی ہیں جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں http://paktradeinfo.com/
So complete list of land cruisers imported into the country in last three months. Check market price. pic.twitter.com/P4IueWhMUe
— Abdullah Saad (@kursed) January 19, 2023
جب مہنگائی کا شکار متوسط اور نچلا طبقہ متاثر ہو رہا ہے تو اشرافیہ تمام پابندیوں سے مستثنیٰ دکھائی دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں نے پابندی کے باوجود ان مہنگی لگژری گاڑیوں کی درآمد پر شدید پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ٓ
As a Coup de grâce.. we even have a couple of Ferraris land in Pak in this time period. A SF90… too… pic.twitter.com/WmPQwf5cqm
— Abdullah Saad (@kursed) January 19, 2023
22 دسمبر میں 43 لگژری کاریں اور ای وی درآمد کی گئیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی اشرافیہ ہی اس کھیل کا واحد حصہ نہیں ہے، حکومت بھی اس میں شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی 43 لگژری اور الیکٹرک گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جن میں 18 ہیوی بائیکس بھی شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان آٹو انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ امریکی ڈالر کی کمی ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کار کمپنیوں کو CKD کٹس درآمد کرنے کے لیے ایل سی جاری نہیں کر رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر، آٹو انڈسٹری مجازی طور پر رک گئی ہے کیونکہ کمپنیوں کو بار بار پیداوار بند ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوسری طرف لگژری کاروں، الیکٹرک گاڑیوں (EVs) اور یہاں تک کہ ہیوی بائیکس کی درآمد جاری ہے۔
ماہر اقتصادیات علی خضر کے ایک حالیہ ٹویٹ نے اس اشارے کو درست ثابت کیا۔ علی خضر کے مطابق، گزشتہ سال دسمبر مین 43 لگژری گاڑیاں امپورٹ کی گئیں جن یں 23 لینڈ کروزر اور لیکسس، 20 الیکٹرک گاڑیاں ( جن میں زیادہ تر ای-ٹران شامل ہیں) امپورٹ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزید لکھا کہ 18 ہیوی بائکس (بشمول BMW Motorrad اور Harley-Davidson) بھی درآمد کی گئی ہیں جن کو گزشتہ ماہ کلیئر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس عرصے کے دوران 300 سے زیادہ استعمال شدہ کاریں – بشمول وِٹز اور ویزل بھی کی گئیں۔
آٹو انڈسٹری کے لیے اور مجموعی طور پر ملک کے لیے اس مشکل پیچ کے درمیان، اتنی مہنگی کاروں کو درآمد کے لیے صاف کرنا بہت کم یا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ ایک طرف تو حکومت مقامی کار اسمبلرز سے کہہ رہی ہے کہ ایل سی کے لیے کوئی ڈالر نہیں ہے تو دوسری طرف ایسی گاڑیوں کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے جس سے صرف ایک سوال ہے کہ کیسے؟ اور دوسرا سوال، کیوں؟