وزارت تجارت کے قواعد کی خلاف ورزی پر 1000 سے زیادہ کاریں حکومت کی کلیئرنس کے انتظار میں پورٹس یعنی بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہیں۔
غیر ملکی زرِ مبادلہ (فارن ایکسچینج) ملک سے باہر جانے سے روکنے کی کوشش میں حکومت نے جنوری 2019ء سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر کئی پابندیاں لگائیں۔ اس سے پہلے ملک میں تقریباً 34,000 گاڑیاں درآمد کی جاتی تھیں۔ البتہ جنوری 2019ء کے بعد سے صرف 1800 گاڑیاں ہی درآمد ہو پائی ہیں جن میں سے آدھی سے زیادہ کلیئرنس کے لیے پورٹس پر پھنسی ہوئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا ہے کہ جس سے ریونیو کلیکشن میں بڑا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب مقامی آٹو انڈسٹری بھی ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے کیونکہ گزشتہ مہینے گاڑیوں کی فروخت گرتے ہوئے تقریباً آدھی ہو گئی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بھاری جرمانے ادا کرنے کے بعد کتنی گاڑیوں کو کلیئرنس ملے گی۔
دوسری جانب حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے قواعد میں چند تبدیلیاں کرکے کمرشل امپورٹرز پر سے کچھ پابندیاں ہٹائے۔ بالخصوص فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) یہ قدم اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ اس میں مقدار پر کچھ پابندیاں (QRs) لگا کر انہیں چھوٹ دینے کی تجویز موجود ہے۔ محکمہ خاص طور پر اس سے حاصل ہونے والے ریونیو میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں مقابلے کی فضاء پیدا ہوگی۔ وزارت تجارت نے تین سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سخت قواعد مرتب کر رکھے تھے اور امپورٹر کی بینک اکاؤنٹ تفصیلات کی شرط لگائی اور ان کے تحت صرف قریبی رشتہ دار ہی ملک میں گاڑی امپورٹ کر سکتا ہے۔ البتہ بے ضابطگیاں جاری رہیں کیونکہ بیرونِ ملک مقیم 5 فیصد حقیقی پاکستانیوں نے ہی اس عرصے میں گاڑیاں درآمد کیں۔ باقی تمام گاڑیاں امپورٹرز مافیا کی جانب سے درآمد کی گئی جنہوں نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے پاسپورٹس استعمال کیے۔
اب حکومت بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی تمام گاڑیوں کو کلیئر کرنے کے لیے ایک مرتبہ کی چھوٹ دینے کے لیے دباؤ میں ہے۔ لیکن حکومت اس حال میں ہے کہ جہاں نہ وہ اُگل پا رہی ہے اور نہ نگل پا رہی ہے۔ چھوٹ دینے کا مطلب ہوگا کہ امپورٹرز دباؤ ڈال کر حکومت کو مجبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری جانب اگر حکومت اپنے موقف پر قائم رہتی ہے تب بھی اس پر الزام لگے گا کہ لوکل آٹو مینوفیکچررز اپنا اثر و رسوخ ڈال کر امپورٹرز کی گاڑیاں کلیئر نہیں ہونے دے رہے۔ کمرشل امپورٹرز کے لیے نئی اسکیم متعارف کروانے کے امکانات پر غور کرنے کے لیے بھی ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ تمام متعلقہ محکمہ جات بشمول فائنانس ڈویژن، وزارت تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے اس ضمن میں اپنی رائے پیش کی۔
فائنانس ڈویژن کے مطابق گاڑیوں کی درآمد کے لیے امپورٹ پالیسی آرڈر 2016ء بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کے لیے متعارف کروایا گیا تھا۔ کامرس ڈویژن نے انہیں پرسنل بیگیج، ٹرانسفر آف ریزیڈنس اور گفٹ اسکیم کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ البتہ کمرشل امپورٹرز نے تسلسل کے ساتھ اس اسکیم کا استحصال کیا۔ اس کا نتیجہ منی لانڈرنگ اور ملک سے غیر ملکی زر مبادلہ (فارن ایکسچینج) کے باہر جانے کی صورت میں نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ کامرس ڈویژن نے امپورٹ کے میکانزم میں کچھ تبدیلیاں کیں کہ جس کے تحت یہ شرط عائد کی گئی کہ تمام ٹیکس اور ڈیوٹیاں ذیل میں سے کسی کی جانب سے غیر ملکی زرِ مبادلہ میں ادا کی جائے گی:
پاکستانی شہری کی جانب سے خود یا
مقامی طور پر وصول کردہ جانب سے کہ جسے بینک اِن کیش منٹ سرٹیفکیٹ کی سپورٹ حاصل ہے جو مندرجہ ذیل شرائط کے مطابق غیر ملکی ترسیلِ زر (remittance) کی مقامی کرنسی میں منتقلی کو ظاہر کرتا ہو:
ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی میں استعمال ہونے والا ترسیلِ زر بیرونِ ملک سے گاڑی بھیجنے والے کسی پاکستانی کے اکاؤنٹ سے ہوئی ہو۔
ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے کی جانے والی ترسیلِ زر کسی پاکستانی شہری کے اکاؤنٹ میں موصول ہو۔ اکاؤنٹ نہ ہونے کی صورت میں خاندان کے کسی رکن کے اکاؤنٹ میں ہو۔
بہرحال، بہت کم عرصے میں گاڑیاں کی بڑی تعداد پھنس چکی ہے۔ حکومت بھی انہیں کلیئر کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈ رہی ہے اور بالآخر مستقبل میں واضح اور مستقل پالیسی مرتب کرے گی۔ ہماری طرف سے اتنا ہی۔ آٹوموبائل انڈسٹری کے بارے میں مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔