گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے اور اُن پر بڑھتے ہوئے ٹیکس کی وجہ سے آٹو-ورکرز کی بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں ہزاروں افراد کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے چیئرمین محمد اکرم نے ایک بیان دیا ہے کہ کاروں کے تاجر جولائی سے اب تک ہزاروں بیرونی ملازمین، دیہاڑی داروں اور ٹھیکے پر رکھے گئے کارکنوں کو نکال چکے ہیں۔ یہ سب آٹو سیکٹر میں پیداوار اور فروخت میں آنے والے مجموعی زوال کا سبب ہے۔
PAAPAM چیئرمین کی رائے:
چیئرمین PAAPAM محمد اکرم نے ایک مقامی میڈیا ادارے کو دیے گئے انٹرویو کے دوران کہا کہ انہوں نے ملک بھر میں گاڑیوں کی فروخت میں آنے والی بڑی کمی کے بعد کاریں اور دیگر گاڑیاں بنانے والے اداروں کی طرف سے پرزوں کے حصول میں باضابطہ کمی کی بدولت تقریباً 40,000 ملازمین کو نکالنے کے بارے میں اپنے 400 اراکین کا ردعمل ملاحظہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “میں اگلے دو سے تین مہینوں میں فروخت آنے والی کمی کی صورت میں مزید بے روزگاری دیکھ رہا ہوں۔”
چیئرمین نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملازمین کو نکالنے کا یہ عمل آئندہ مہینوں میں بھی جاری رہے گا۔ جلد ہی مستقل ملازمین کی باری بھی آ سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی پہلے ہی آٹو سیکٹر میں مکمل زوال کی علامات کے ساتھ اختتام کو پہنچی ہے، جبکہ فروخت دسمبر تک کم ہی رہنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے گاڑیوں، بالخصوص کاروں، میں لوکلائزیشن کی کمی کو قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کی وجہ قرار دیا۔ PAAPAM کے چیئرمین سمجھتے ہیں کہ لوکلائزیشن کے عمل میں اضافہ گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو کم کر سکتا ہے۔
شعبے میں کام کرنے والے ملازمین کو نکالا جانا کار وینڈرز اور آٹو انڈسٹری کے لیے سنگین مسائل کی وجہ بنا ہے۔ البتہ دوسری جانب حال ہی میں ٹویوٹا گاڑیاں بنانے والی انڈس موٹر کمپنی (IMC) نے یقینی بنایا کہ وہ ڈاؤن سائزنگ نہ کرے اور کم فروخت کے باوجود اپنے ملازمین کو نہ نکالے۔ یہ وہ قدم ہے جسے سراہنا چاہیے۔ IMC یکم اکتوبر سے اپنی اصل گنجائش سے آدھی آٹو پروڈکشن کر رہا ہے، جبکہ اس کا پلانٹ ستمبر میں 15 دن تک بند بھی رہا۔
ہماری طرف سے اتنا ہی، اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔