پاکستان میں الیکٹرک وہیکل انڈسٹری پر سب کی نظریں

0 233

عام انجنوں سے ہونے والے کاربن اخراج کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت ایک EV پالیسی کو آخری شکل دے رہی ہے جو پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ 

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے حال ہی میں تجویز کردہ الیکٹرک وہیکل پالیسی پیش کی، جس کی مقامی آٹوموبائل انڈسٹری کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی ہے۔ اس میں الیکٹرک گاڑیوں کے مکمل طور پر تیار شدہ یونٹس (CBUs) ملک میں درآمد کرنا شامل ہے جو مقامی سیکٹر کے مطابق آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) ‏2016-21ء کی خلاف ورزی ہے۔ ان گاڑیوں کےCBU یونٹس کی درآمد سےلوکلائزیشن کے عمل کو بہت نقصان پہنچے گا۔ الیکٹرک کار کے 70 فیصد پرزے سوائے بیٹریوں اور الیکٹرک موٹر کے مقامی طور پر بنائے جا سکتے ہیں پھر بھی حکومت ایک ایسی پالیسی ترتیب دے رہی ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کے CBU اور CKD یونٹس پر کسٹمز ڈیوٹی میں رعایت پیش کرتے ہیں۔ 2030ء تک حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی صورت میں مارکیٹ شیئر کا 30 فیصد حاصل کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔ یہ بھی مانا گیا ہے کہ حکومت قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی کی تیاری اور اسے آخری شکل دینے کے لیے متعدد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی مذاکرات کر رہی ہے۔ دوسری جانب دنیا الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کی جانب قدم بڑھا رہی ہے اور یہاں تک کہ انہیں دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی برآمد کر رہی ہے۔ 

فضائی آلودگی کے مضر اثرات نمایاں ہیں کیونکہ ماحول بہت تیزی سے خراب ہوتا جا رہا ہے۔ عام انجنوں سے ہونے والا کاربن اخراج ماحول کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ایک بہترین متبادل ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کا انتخاب پٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں بھی کمی لائے گا کہ ان گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے بجلی ان کی جگہ لے لے گی۔ مطلوبہ نتائج حاصل کرے اور الیکٹرک گاڑیوں کو عملی طور پر متعارف کروانے کے لیے پالیسی تیاری کی رفتار کو سنبھالنےکی سخت ضرورت ہے بجائے اس کے کہ جلد بازی میں فیصلے کیے جائیں جیسا کہ اس وقت کیے جا رہے ہیں۔ EV پالیسی صارف کے مفاد میں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں صارفین طویل عرصے سے مصنوعات کے معیار سے محروم ہیں اس لیے وہ حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ ایک ایسی اسٹریٹجک پالیسی مرتب کی جائے جو معیار، کارکردگی اور بعد از فروخت سرو‎سز کے اعتبار سے صارفین کے حق میں ہو۔ الیکٹرک انڈسٹری کی ٹیکنیکل پیشرفت کے ساتھ پرزوں کی لوکلائزیشن کی بدولت اس شعبے میں ملازمت کے مزید مواقع تخلیق ہوئے ہیں۔ 

دوسری جانب لوکلائزیشن آٹو انڈسٹری کو فائدہ پہنچنے والے کسی بھی دوسرے عوامل جتنی ہی ضروری ہے۔ البتہ پیداواری حجم کم ہونے کے ساتھ اس عمل کو لوکلائز کرنا اتنا سیدھا سادا نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ لوکلائزیشن کے بغیر درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے اور آٹو سیکٹر کو بہت نقصان پہنچتا ہے، یوں وہ تمام تر بوجھ صارف پر منتقل کر دیتا ہے۔ اس مرحلے پر حکومت کو ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو مخصوص قواعد کے اندر رہتے ہوئے کام کرے بجائے اس کے کہ ملک میں EVs فروخت کرنے کے لیے ہر دوسری کمپنی کے لیے دروازہ کھول دیا جائے۔ توجہ ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ اور اس پورے عمل کو ایک چھت تلے لانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر ہونی چاہیے ۔ زمینی حقائق کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے تاکہ ان گاڑیوں کے CBU یونٹس کی درآمد کے ذریعے مقامی آٹو سیکٹر کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔ 

حکومت کو ملک میں الیکٹرک موٹر سائیکلوں کے لیے موجود گنجائش کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ موٹر سائیکلوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو تقریباً 50 فیصد پٹرول استعمال کرتی ہے۔ یاد رکھیں کہ پاکستان دنیا میں موٹر سائیکلوں کی پانچویں سب سے بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ دیگر چار ممالک چین، بھارت، انڈونیشیا اور ویت نام ہیں۔ اس لیے پٹرول کے استعمال میں بہت بڑی کمی لائی جا سکتی ہے۔ موٹر سائیکلیں بنانے والے موجودہ اداروں کی اس شعبے میں حوصلہ افزائی بھی کی جا سکتی ہے۔ 

اپنی تجاویز نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔ پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کی تازہ ترین خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.