‏IMC نے مالی سال ‏2018-19ء‎ کے لیے ٹیکس کی مد میں 13.71 ارب روپے جمع کروائے

0 177

انڈس موٹر کمپنی نے مالی سال ‏2018-19ء‎ میں کُل 13.71 ارب روپے کے ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنے منافع کے مارجن ظاہر کردیے ہیں۔ 

پریس ریلیز کے مطابق 27 اگست 2019ء کو انڈس موٹر کمپنی (IMC) کا ایک اجلاس ہوا تھا کہ جس میں اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 30 جون 2019ء کو مکمل ہونے والے مالی سال میں آٹومینوفیکچرر کی آپریشنل اور مالیاتی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ کمپنی نے اس عرصے میں بھاری ٹیکس ادائیگی کی۔ تفصیلات کے مطابق کمپنی کی مجوعی نیٹ سیلز کا ریونیو 13 فیصد بڑھ کر 157.9 ملین روپے تک پہنچا جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں یہ 139.7 ارب روپے تھا۔ 13.71 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کرنے کے بعد کمپنی کا منافع پچھلے سال کے 15.8 ارب روپے کے مقابلے میں 13 فیصد کم ہوکر 13.7 ارب روپے رہ گیا۔ ٹیکس ادا کرنے سے قبل بھی کمپنی کے منافع میں 17 فیصد کمی آئی جو پچھلے سال کے 22.9 ملین روپے کے مقابلے میں 18.9 ارب روپے رہا۔ 

اس وقت آٹوموبائل انڈسٹری سخت بحران کے دور سے گزر رہی ہے کیونکہ مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی ہو رہی ہے۔ آٹو مینوفیکچررز کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیاں بھی ملک میں معاشی سست روی کی صورت حال میں اپنی فروخت کو برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا کر رہی ہیں۔ پچھلے سال ٹویوٹا انڈس نے 65,346 یونٹس کی ریکارڈ پیداوار کے ساتھ اپنے مینوفیکچرنگ پلانٹ کو مؤثر انداز میں استعمال کیا، کہ جو اس پچھلے سال کے 62,886 یونٹس سے زیادہ ہے۔ کمپنی نے پروڈکشن پلانٹ کی گنجائش سے آگے جانے کے لیے اضافی گھنٹوں میں بھی کام کیا۔ انڈس موٹر کمپنی کے CEO علی اصغر جمالی نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کمپنی مقامی آٹو سیکٹر سے اچھی طرح جڑی ہوئی ہے اور اپنے مخلص صارفین کے لیے پیش کرتا رہے گا کہ جو سالوں سے ٹویوٹا کی مصنوعات پر زبردست بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ 

آٹو سیکٹر کو بحران کا سامنا: 

ملک میں اقتصادی سست روی کا نتیجہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی صورت میں نکلا ہے۔ اس کی وجہ اضافی ٹیکس اور ڈیوٹی کا نفاذ ہے کہ جس نے گاڑیوں کی قیمت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا ہے۔ دیگر اہم عوامل میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی میں تیزی سے آنے والی کمی، شرحِ سود میں اضافہ اور مقامی مارکیٹ میں موجود غیر یقینی کی کیفیت ہے۔حکومت نےغیر ملکی زرِ مبادلہ (فارن ایکسچینج)کو بیرونِ ملک جانے سے روکنے کی خاطر گاڑیوں کی درآمد کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات بھی اٹھائے۔ البتہ کمرشل امپورٹرز وزارت تجارت کی جانب سے بنائی گئی امپورٹ پالیسی کا اب بھی غلط استعمال کر رہے ہیں۔ 

مزید یہ کہ 1700cc اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں پر اکتوبر 2018ء میں لگائی گئی 10 فیصد FED نے گاڑیوں کی فروخت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ اپنے پہلے بجٹ میں حکومت نے FED کا دائرہ بڑھایا اور اسے2.5 سے 7.5 فیصد تک کی تین قسم کی شرح کے ساتھ تمام اقسام کی گاڑیوں پر لگا دیا۔ گاڑیاں بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال پر ایڈوانس کسٹمز ڈیوٹی میں اضافے سے آٹو انڈسٹری منہ کے بل آ گری۔ صارفین کی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی آئی اور آٹو انڈسٹریز کی پیداواری گنجائش مارکیٹ میں موجود طلب سے بھی بڑھ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں گاڑیاں بغیر کسی اضافی چارجز کے دستیاب ہیں۔ 

دوسری جانب موجودہ حالات میں پیداواری لاگت میں بڑا اضافہ ہوا جو آٹو مینوفیکچررز کو اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور کر رہا ہے۔ ٹویوٹا کے CKD اور CBU یونٹس کی مجموعی فروخت میں پچھلے سال کے 64,000 کے مقابلے میں 3.5 فیصد اضافہ ہوا کہ جو 66,211 تک جا پہنچی۔ البتہ کمپنی نے مقامی سطح پر بنائی جانے والی مسافر کاروں اور لائٹ کمرشل گاڑیوں کا 22 فیصد مارکیٹ شیئر برقرار رکھا۔ کمپنی کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ماڈل کرولا اپنے انٹری لیول کے XLi ویرینٹ کا آٹومیٹک ورژن متعارف کروانے کی بدولت اور مضبوط ہوا۔ کمپنی صارفین کے لیے اپنی نوعیت منفرد ایپلی کیشن ٹویوٹا کنیکٹ بھی متعارف کروا چکی ہے۔ ایک حالیہ قدم میں آٹومیکر نے اپنی گھٹتی ہوئی سیلز کو بہتر بنانے کے لیے ٹویوٹا کرولا کے 1.3L ویرینٹس کی خریداری پر محدود وقت کے لیے مفت رجسٹریشن کی سہولت پیش کی ہے۔ 

ٹویوٹا مصنوعات کی سیلز کے اعداد و شمار: 

اس کے باوجود ٹویوٹا کرولا کی فروخت گزشتہ سال کے 51,412 یونٹس کے مقابلے میں 10.3 فیصد اضافے کے ساتھ 56,720 تک پہنچی۔ کمپنی نے ہائی لکس LCVs کے 6070 یونٹس فروخت کیے، جو پچھلے سال کے 7470 یونٹس کے مقابلے میں 18.7 فیصد کم ہیں۔ ٹویوٹا فورچیونر کی فروخت پچھلے سال کے 4186 یونٹس کے مقابلے میں 37.6 فیصد کمی کے ساتھ 2609 یونٹس تک گرگئی۔ ٹویوٹا انڈس نے قومی خزانے میں کل 56 ارب روپے کا حصہ ڈالا جو حکومت پاکستان کے کل ریونیو کا تقریباً 1 فیصد ہے۔ 

آٹو سیکٹر کو ایک مرتبہ پھر بحال کرنے کے لیے حکومت کو مقامی آٹو مینوفیکچررز کے لیے مستقل اور مددگار پالیسیاں متعارف کروانی چاہئیں۔ آٹو انڈسٹری ترقی کے وسیع امکانات رکھتی ہے لیکن اسے کام کے لیے موزوں ماحول کی ضرورت ہے۔ مستقل ترقی کے لیے مقامی مارکیٹ میں ایک مرتبہ پھر صارفین کا اعتماد حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ حکومت کو ملک میں گاڑیوں کی فروخت بڑھانے کے لیے اقتصادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہماری طرف سے اتنا ہی۔ اپنی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی تازہ ترین خبروں کے لیے پاک ویلز سے جڑے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.