اقوام متحدہ کے سیف سٹی پروجیکٹ میں لاہور کی ممکنہ شمولیت کے ساتھ پاکستان اسمارٹ سٹیز کلب کا رکن بن جائے گا۔ اس کے لیے UN-Habitat کی ایک ٹیم کا مارچ 2019ء کے اوائل میں پاکستان کا دورہ طے شدہ ہے۔
اکبر نثار خان، چیف آپریٹنگ آفیسر (COO) پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) نے کہا کہ یہ مخصوص منصوبہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ بنیادی مقصد شہریوں کی حفاظت یقینی بنانا اور انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چند قابلِ مذمت واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ECNEC) نے اس کی قصور تک توسیع کی منصوبہ جاتی لاگت پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ منصوبے کی ابتدائی لاگت 13.42 ارب روپے تھی جو 17.5 ارب تک چلی گئی۔ پچاس کیمرے پہلے ہی قصور میں انسٹال کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے 45 اگلے ماہ کے آخر تک کام شروع کردیں گے۔
منصوبے کو پنجاب کے دیگر شہروں تک توسیع دینے کے لیے اتھارٹی نے منصوبہ بندی کے لیے تجاویز پیش کیں۔ منصوبے کی توسیع کے لیے صوبے کے چھ بڑے شہروں پر غور کیا جا رہا ہے کہ جن میں راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، ملتان اور بہاولپور شامل ہیں۔ البتہ وزیر اعلیٰ پنجاب ڈیرہ غازی خان میں یہ اس منصوبے کے نفاذ کے حق میں ہیں۔ یہ توسیع نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں بھی مددگار ہوگی ستھ ہی یہ منصوبہ کم از کم 5000 نئی ملازمتیں تخلیق کرے گا۔ البتہ اگلے تین سال کے عرصے میں اس کی تکمیل کے لیے 50 ارب روپے کی بڑی رقم درکار ہوگی۔
دریں اثناء منصوبے کی نوعیت ایسی ہے جو فوری طور پر آمدنی کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ حکومت پنجاب گزشتہ تین ماہ میں ای-چالان سسٹم کی مدد سے 75 ملین روپے حاصل کر چکی ہے۔ اس وقت لاہور کا سیف سٹی پروجیکٹ اپنے بنیادی ڈھانچے کی بدولت مقامی و بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1.5 ملین افراد لاہور میں داخل ہوتے یا باہر جاتے ہیں۔ لاہور میں سیف سٹی پروجیکٹ مختلف مقامات پر 8000 کیمرے رکھتا ہے۔ ان میں سے 930 کیمرے سافٹویئر کے ذریعے چہرے پہچاننے کی صلاحیت سے لیس ہیں۔ یعنی یہ منصوبہ وہ تمام خصوصیات رکھتا ہے جو شہریوں کی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنانے کا احاطہ کرتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت پنجاب موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء میں ترمیم کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یہ وضع کردہ منصوبہ ای-چالانز میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ کرتا ہے اور ساتھ ہی گاڑی خریدنے سے قبل ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو لازمی قرار دے گا۔ COO کے مطابق اس ترمیم کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے منظوری مل چکی ہے اور اب یہ پنجاب اسمبلی سے منظوری کی منتظر ہے۔
پنجاب پولیس حکام نے بھی سیف سٹی پروجیکٹ کو سراہا کیونکہ یہ انہیں نگرانی میں مدد دیتا ہے اور نتیجہ مجرمانہ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ وڈیو شواہد کی موجودگی سے یہ منصوبہ پولیس کے لیے اپنے فیصلے لینا آسان بناتا ہے۔ مزید برآں، اس نے قانون کی پیروی کرنے والے شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ منصوبے کی توسیع کا نتیجہ دیگر شہروں میں بھی شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہونے کی صورت میں نکلے گا۔
مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔