سوزوکی بلینو کی ناکامی: گاڑی میں مسئلہ ہے یا پھر ‘استادوں’ کی تربیت میں؟
اب سے کوئی چھ مہینے قبل نومبر 2015 میں میں نے اپنی سوزوکی مہران 2000 فروخت کر کے استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2004 خرید لی۔ گاڑی کی مجموعی حالت بہترین تھی البتہ کلچ پلیٹ، سسپنشن اور کمزور گیس کٹ وغیرہ پر چھوٹا موٹا کام درکار تھا۔ میں چونکہ اپنے خاندان کے ہمراہ اکثر کراچی سے حیدرآباد، میرپور خاص، عمر کوٹ اور سہون شریف جیسے شہروں میں جاتا رہتا ہے اس لیے گاڑی خریدنے کے بعد سب سے پہلے یہی چھوٹے موٹے کام کروائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی میں کسی بھی ناگہانی مشکل میں پھنسنا پسند نہیں کرتا جبکہ دوسری وجہ یہ کہ گاڑیوں کا شوقین ہونے کی وجہ سے اپنی گاڑی کا خاص خیال رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب کبھی میری چھٹی حس نے گاڑی میں کسی قسم کی خرابی محسوس کی، میں نے اسے کبھی بھی نظر نہیں کیا۔ عام طور پر یہ گاڑی گھر سے دفتر اور پھر واپس دفتر سے گھر آنے کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔ میرے دفتر اور گھر کے درمیان فاصلہ تقریباً 25-30 کلومیٹر ہے یوں مجھے آنے اور جانے میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔
ایک “ناکام گاڑی” کے تجربے کی شروعات
استعمال شدہ سوزوکی بلینو خریدنے کے بعد میں کراچی سے حیدرآباد گیا۔ گو کہ شہر قائد سے روانگی بخیر و خوبی ہوئی تاہم حیدرآباد سے واپس آتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ کلچ پلیٹس کو فوری تبدیل کیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے لیے میں نے اپنے کزن کے پاس گیا جو گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ میرے کزن نے مجھے ایک ساتھی سے ملوایا جو بقول اس کے گاڑیوں کے کام میں مہارت رکھتا ہے۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنا مدعا بیان کیا تو ان صاحب نے کلچ پریشر پلیٹ تبدیل کرنے کے لیے ایک دن کا وقت مانگا۔ اس کے ساتھ فیول انجکٹرز اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی۔ اگلے روز میں نے اپنی گاڑی ان کی ورکشاپ پر پہنچا دی اور مجھے کل صبح گاڑی واپس لے جانے کا کہہ دیا۔ اگلے روز صبح مجھے وقت نا ملا تو میں نے دفتر سے واپس جاتے ہوئے ورکشاپ جانے کا فیصلہ کیا۔ شام میں وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت “خوشی” ہوئی کہ گاڑی کا بونٹ کھلا ہوا ہے، گیئر باکس نکالا جاچکا ہے اور ایک شاک آبزرور بھی غائب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2001 کا تفصیلی معائنہ
میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ گاڑی پر ابھی کام چل رہا ہے اور یہ صبح تک بالکل تیار ہوجائے گی۔ میں نے اپنے کزن کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا جس نے مجھے ورکشاپ والے صاحب سے متعارف کروایا تھا۔ میرے کزن نے بھی اپنے دوست پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور جلد از جلد کام مکمل کرنے کا کہا۔ میں نے بھی ان سے عرض کیا کہ استاد پرسوں مجھے ہر صورت حیدرآباد جانا ہے، آپ کی مہربانی ہوگی کہ اگر کل تک مجھے گاڑی چلتی ہوئی حالت میں واپس کردیں۔ استاد نے میری عرضی قبول کرلی اور میں ایک بار پھر استاد کی باتوں پر بھروسہ کر کے گھر لوٹ آیا۔
اگلے روز شام میں مجھے ایک بار پھر استاد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ گاڑی کی صورتحال یہ تھی کہ گیئر باکس تو واپس لگایا جاچکا تھا لیکن شاک آبزرور اب بھی غائب تھا۔ مجھے شدید غصہ آیا کہ بارہا اصرار اور یقین دہانی کے باوجود اب تک گاڑی ناقابل استعمال حالت میں ہے۔ میں نے اپنے غصے پر بمشکل قابو پایا اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ گاڑی ہر صورت آج ہی چاہیے لہٰذا جلد از جلد کام مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ استاد چارو ناچار میری بلینو پر کام شروع کردیا لیکن اس دوران بار بار مجھے صبح تک گاڑی لے جانے کا مشورہ دیتا رہا جسے میں کسی بھی صورت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ گاڑی کے پرزے جوڑتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ دوسری گاڑیوں کو بھی دیکھ رہا تھا جس سے مجھے شدید کوفت محسوس ہونے لگی۔ بالآخر میں نے اپنے اسی کزن کو فون کیا اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ میرا کزن نے شدید شرمندگی ظاہر کی اور خود اس ورکشاپ پر آنپہنچا۔ اس سے قبل جب گاڑی میں چند ایک بولٹ لگانے رہ گئے تو استاد دوسری گاڑی دیکھنے کے چلا گیا اور ایسا گیا کہ پھر واپس نہ آیا۔
پندرہ، بیس منٹ انتظار کے بعد جب استاد سے رابطہ ہو تو انہوں نے فرمایا کہ باقی کا کام وہ صبح کرے گا کیوں کہ ابھی اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ میرے کزن یہ بات سن کر طیش میں آگیا۔ پہلے اس نے فون پر استاد کو کھری کھری سنائی اور پھر خود ہی اوزار اٹھا کر گاڑی کے باقی بولٹس کسنے لگا۔ خوش قسمتی سے گاڑی میں زیادہ کام باقی نہ تھا یوں تھوڑی محنت کے بعد میں اپنی گاڑی گھر لے جانے کے قابل ہوگیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے پلٹ کر اس ورکشاپ کا دوبار رخ نہیں کیا۔ جب میرے کزن نے ورکشاپ پر اپنی مدد آپ کے تحت خود یہ گاڑی کے نٹ بولٹ کسنے کا فیصلہ کیا تو وہاں موجود دیگر مکینک یہ کہتے سنے گئے کہ یار! بلینو ہے ہی ناکام گاڑی!۔ اس وقت میں شدید غم و غصے کی حالت میں تھا اس لیے ان سے بحث میں الجھنا مناسب خیال نہیں کیا اور خاموش سے گھر چلا آیا۔
اگلی بار جب میں کراچی سے حیدرآباد کے روانہ ہوا تو مجھے انجن missing کا مسئلہ درپیش پوا۔ حیدرآباد پہنچ کر میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو ایک ورکشاپ چلاتا ہے۔ یہ وہی دوست تھا کہ جس کے مشورے سے میں بلینو خریدی تھی۔ اس نے سوزوکی بلینو سے متعلق کافی مثبت باتیں بتائیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی باور کروایا کہ اگر بلینو میں missing یا کوائل کا مسئلہ آجائے تو پھر اسے حل کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ خوش قسمتی سے جب میری بلینو میں یہ مسئلہ آیا تو میرا دوست کوائل تبدیل کر کے اسے حل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد تقریباً چار ماہ تک معمول کے مطابق آئل تبدیل کروانے ہی کے لیے ورکشاپ گیا اور مجھے کوئی بھی دوسرا مسئلہ درپیش نہ ہوا۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
پچھلے مہینے کی بات ہے کہ مجھے حیدرآباد جانے کے لیے ٹھٹہ سے منسلک ایک ایسے راستے سے گزرنا پڑا کہ جس سے میں ناواقف تھا۔ چونکہ رستہ میرا دیکھا بھالا نہیں تھا اس لیے 90،100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی اسپیڈ بریکر سے گزری۔ اچانک اسپیڈ بریکر سامنے آجانے کی وجہ سے میں پہلی ی گھبرا گیا تھا پھر اگلے شاک آبزرورز سے آنے والی آواز نے مجھے اور بھی خوفزدہ کردیا۔ میں نے وقت ضائع کیئے بغیر اپنے دوست کی ورکشاپ کا رخ کیا اور اسے اگلے شاک آبزرور سے آنے والی آواز سے متعلق بتایا۔ وہاں پہنچ کر علم ہوا کہ شاک لیک ہوچکا ہے لہٰذا مارکیٹ سے نیا خرید کر اسے تبدیل کرنا پڑے گا۔ نئے شاک آبزرور بمع ماؤنٹنگ اور نئے اسپرنگ تقریباً 11 ہزار روپے میں مل گئے۔ مجموعی طور پر میں نے اس روز 18 ہزار روپے سسپنشن سسٹم پر خرچ کیے۔ ان تمام کاموں میں تقریباً 4 گھنٹے لگے جس دوران مارکیٹ میں نئے شارک آبزرور کی تلاش پر لگنے والا وقت بھی شامل ہے۔ یوں میں ایک ہی دن میں تمام کام کروا کر اگلے روز کراچی کے لیے روانہ ہوگیا۔
کراچی واپس آتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ گاڑی کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہورہی۔ میں نے ریڈیئٹر چیک کیا تو اندازہ ہوا کہ گیس کِٹ میں کوئی مسئلہ ہوا ہے۔ کراچی پہنچنے کے بعد میں نے اپنے دفتر میں گاڑیوں کا کام کرنے والے ایک ساتھی کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔ وہ چونکہ ہمارے دفتر کی گاڑیاں چلاتا رہتا ہے اور اس میں آنے والے مسئلے بھی حل کرتا اور کرواتا رہتا ہے اس لیے فوراً میرے مسئلہ کو سمجھ گیا۔ میری درخواست پر وہ بلینو کو مقامی ورکشاپ لے گیا جہاں ہماری دفتر کی گاڑیوں مرمت وغیرہ کے لیے جاتی ہیں۔ شام میں گھر واپس آتے ہوئے میں خود اس ورکشاپ پر گیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری گاڑی بالکل تیار ہے۔ میرے ساتھی نے کاموں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بیئرنگ بہت زیادہ آواز کر رہے تھے لہٰذا انہیں بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بیلٹس بھی گل چکی تھیں اس لیے انہیں بھی بدل دیا ہے۔ ان تمام چیزوں بشمول مکینک کی اجرت کُل 6 ہزار روپے بنے۔ اس نے مجھے چند روز گاڑی چلا کر دیکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس دوران اگر کوئی مسئلہ آیا تو ہم اسے ٹھیک کردیں گے۔ میں نے اس کے پیسے ادا کیے اور شکریہ کے ساتھ گاڑی لے کر گھر ہولیا۔
رات میں جب تسلی سے گاڑی چیک کرنے کے لیے باہر نکالی اور چابی گھمائی تو سائلینسر میں تھرتھراہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ چھوٹا سا مسئلہ ہے جو میرا ساتھی باآسانی حل کروا لائے گا۔ پھر میری توجہ انجن لائٹ کی طرف ہوگئی جو مسلسل جل رہی تھی۔ پھر میں نے گاڑی کا ایئرکنڈیشنر کھولا تو پتہ چلا کہ وہ بھی کام نہیں کر رہا۔
اگلے روز میں نے یہ تمام مسئلے ایک کاغذ پر لکھے اور دفتر کے ساتھی کو کاغذ تھماکر گاڑی کے ہمراہ مکینک کے پاس بھیج دیا۔ شام میں مکینک نے بتایا کہ اس نے AC ٹھیک کردیا ہے البتہ انجن لائٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لےی الیکٹریشن اگلے دن آئے گا۔ آئندہ روز دفتر سے واپسی میں جب مکینک کے پاس پہنچا تو اس نے کہاکہ سر اگنیشن سسٹم پر بہت زیادہ لوڈ پڑ رہا ہے اس لیے آپ اسے تبدیل کروالیں۔ اس کے علاوہ بیٹری بھی ختم ہوچکی ہے اور فیول انجکٹرز میں بھی مسئلہ لگ رہا ہے اسی وجہ سے انجن لائٹ جل رہی ہے۔
یہ سب سن کر غصے سے میرے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ مکینک کو جواب دینے کے بجائے میں نے اپنے ساتھی کو فون کیا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میری اچھی خاصی گاڑی کیسے کچرے کا ڈھیر بن گئی؟ اس کا کوئی بھی سسٹم کام نہیں کر رہا جبکہ ایک دن پہلے تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس نے مکینک سے بات کی اور پھر مجھے بتایا کہ مکینک کل صبح تک اگنیشن کی سروس اور فیول انجکٹرز لگا کر گاڑی آپ کے حوالے کردے گا۔ میں نے اسے صاف لفظوں میں دوبارہ وہاں جانے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد دفتر کے شعبہ ٹرانسپورٹ نے مجھے نسبتاً بڑی ورکشاپ سے متعلق بتایا جہاں زیادہ تجربکار مکینک موجود ہیں۔
اگلی صبح جب میں نے اس ورکشاپ جانے کے لیے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بونٹ کھول کر چیک کیا تو اندازہ ہوا کہ بیٹری کا کام تمام ہوچکا ہے۔ جیسے تیسے میں نے دوسری بیٹری کا بندوبست کیا اور گاڑی کو اس ورکشاپ تک لے گیا۔ وہاں موجود منیجر سے ملاقات کی اور انہیں مسائل سے آگاہ کیا۔ منیجر نے فی الفور اپنے ایک مکینک کو گاڑی چیک کرنے پر لگادیا۔ کچھ دیر گاڑی کی جانچ کرنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ انجن لائٹ کو بند کرنے کے لیے کوئی “جگاڑ” کی گئی تھی جس کی وجہ سے الٹرنیٹر نے کام چھوڑ دیا اور اسی لیے بیٹری چارج نہ ہونے کے سبب کام سے گئی۔ انہوں نے مجھے تجویز دی کہ انجن کے نیچے موجود تمام وائرنگ کے علاوہ مکینکی چیک اپ بھی کروائیں تاکہ تمام مسائل ایک ہی بار میں حل کیے جاسکیں۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا کام نہیں تھا اور اس پر تقریباً 2 دن صرف ہوجانے تھے۔ لیکن میرے پاس منیجر کی بات مان لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا لہٰذا میں نے گاڑی ان کے سپرد کردی۔
اگلے دو دنوں میں کئی بار ورکشاپ کا چکر لگاتا رہا تاکہ گاڑی پر ہونے والے کام کی پیش رفت پر نظر رکھ سکوں۔ دوسرے روز ورکشاپ کے منیجر نے مجھے بتایا کہ گاڑی کا ایئرکنڈیشن آن کرنے پر جلنے کی بو آرہی تھی اور جب اسے چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ ECU کا ایک ٹرانزسٹر جل چکا ہے لہٰذا ECU کی مرمت بھی ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انجن مسنگ کا مسئلہ والوز لیک ہونے کی وجہ سے ہورہا تھا اس لیے انجن کھول کر والو کو مرمت کے لیے بھیج دیا گیا۔ پانچ روز بعد جب مرمت شدہ انجن کا والو واپس پہنچا۔ اس دوران ECU کی مرمت بھی کردی گئی۔ لیکن یہ دونوں چیزیں ٹھیک کروانے کے باوجود بھی گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی۔ اس بار یہ توجیح پیش کی گئی کہ ECU کی مرمت ٹھیک سے نہیں ہوسکی اور اب اس پر مزید کام کرنا بے کار لہٰذا متبادل ECU کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ اس روز کے بعد میں تقریباً روزانہ ہی میں ورکشاپ کا چکر لگاتا رہا اور یہ سنتا رہا کہ ابھی ECU دستیاب نہیں۔ یہ بھات میرے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی کہ پاکستان ہی میں تیار ہونے والی گاڑی کا ECU کراچی کی شیر شاہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ یہ وہی مارکیٹ ہے کہ جہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ اپنی گاڑیوں کے لیے پرزے خریدنے آتے ہیں۔
تقریباً 15 دن گزر جانے کے بعد بھی میرا مسئلہ حل نہ ہواتو میں نے اپنے ایک کزن سے رابطہ کر کے اسے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ پہلے تو میرے کزن نے ورکشاپ کے منیجر کو فون کر کے کھری کھری سنائی اور پھر اگلے روز بلینو کے ECU اور الیکٹریشن کے ہمراہ ورکشاپ پہنچ گیا۔ ہم نے وہاں پہنچ کر ECU لگوایا اور تقریباً 15 سے 20 کے بعد گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ ورکشاپ کے منیجر نے پہلے تو خوشی کا اظہار کیا کہ ہمارا دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا تاہم بعد میں گاڑی دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ابھی ہم اس کی جانچ کریں گے کہ آیا تمام چیزیں ٹھیک کام کر رہی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ اگلے دن اتوار ہے اور اتوار کو آپ کی ورکشاپ بند رہتی ہے اس لیے میرا مزید ایک دن ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اسے بغیر چیک کیے ہی میرے حوالے کردیں۔ منیجر نے بے دلی سے میری بات تسلیم کرلی اور اپنے مکینک کو گاڑی کے پینلز لگانے کا کہا۔ پینلز لگانے کے لیے مکینک صاحب تشریف لائے تو ان کے پاس کلپس کم پڑ گئے۔
خوفناک تجربے کا اختتام
اگلے روز میں سوزوکی بلینولے کر اپنے کزن کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنے ایک ساتھی سے رابطہ کیا اور اس سے بذات خود گاڑی کو چیک کرنے، CNG کِٹ اور دیگر چیزوں کی تسلی کرنے کا کہا۔ کسی قسم کا کام نظر آنے کی صورت میں بھی اسے خود ہی کروانے کی تلقین کی۔ یہ تمام کام 3 سے 4 گھنٹوں میں مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی جس کا مطلب تھا کہ مجھے شام تک اپنی گاڑی بالکل ٹھیک حالت میں مل جائے گی۔ میرے کزن نے بتایا کہ پچھلی ورکشاپ میں گاڑی کا ECU (جان بوجھ کر یا غلطی سے) کر خراب ہوا ہے لہٰذا وہاں دوبارہ جانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر ورکشاپ کا منیجر رابطہ کر کے پیسوں کا تقاضہ کرے تو اس سے گاڑی کے نئے ECU کے پیسے دینے پر اصرار کرنا۔
یہاں بھی مجھے ایک جملہ ایسا سننے کو ملا جو میں بلینو خریدنے کے بعد متواتر سنتا آرہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی یہ سن رکھا ہوگا کہ “بلینو ناکام گاڑی ہے، بہت تنگ کرتی ہے!”۔ مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آخر بلینو کے ناکام ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سوزوکی بلینو کا مسئلہ ہے یا پھر ہمارے “استادوں” کو اس گاڑی کی تمیز نہیں؟ میرے خیال سے مکمل کہانی پڑھنے والے اس بات کا جواب بخوبی جان چکے ہوں گے۔