ٹویوٹا انڈس موٹر کمپنی (IMC) نے طلب میں واضح کمی اور نہ فروخت ہونے والی گاڑیوں کی بڑی مقدار میں موجودگی کی وجہ سے ستمبر 2019ء کے بقیہ دنوں کے لیے اپنی گاڑیوں کی پیداوار مکمل طور پر روک دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق آٹو مینوفیکچرر نے 20 سے 30 ستمبر 2019ء تک اپنا پیداواری پلانٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمپنی کی پیداوار بند ہونے سے اس مہینے میں غیر پیداواری دنوں (NPDs) کی کل تعداد بھی 15 تک جا پہنچی ہے۔ ایک مقامی ڈیلرشپ کے عہدیدار نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ آٹومیکر پچھلے دو مہینوں سے NPDs طے کر رہا ہے۔ جولائی 2019ء میں IMC نے اپنی پیداوار آٹھ دن تک روکی جبکہ یہ تعداد اگست کے مہینے میں بڑھتی ہوئی 12 غیر پیداواری دنوں تک جا پہنچی۔ اب یہ ایک قدم مزید آگے بڑھ چکی ہے کیونکہ ستمبر میں پیداواری پلانٹ 15 دن تک بند رہے گا۔
اس وقت ملک اقتصادی سست روی کے دور سے گزر رہا ہے اور مقامی آٹو انڈسٹری اس صورت حال میں برے حال سے دوچار ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے کمی آئی ہے کہ جس نے مارکیٹ میں موجود تمام آٹوموبائل مصنوعات کی قیمتوں پر بڑا اثر ڈالا۔ بیشتر آٹو پارٹس اور گاڑیاں بنانے میں استعمال ہونے والا خام مواد درآمد کیا جاتا ہےاور ڈالر کی موجود شرح کے حساب سے ان کی لاگت حد سے بڑھ چکی ہے۔ پھر حکومت نے بھی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے اس صنعت کے متاثر ہونے کا تماشا دیکھا۔ بلکہ اس نے گاڑیوں پر نئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگانے کا فیصلہ کیا کہ جس سے صورت حال بدترین ہوگئی۔ مثال کے طور پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کے نفاذ کا نتیجہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کی صورت میں نکلا۔ بعد ازاں حکومت نے FED کا دائرہ مزید بڑھا دیا اور تمام اقسام کی گاڑیوں پر ان کے انجن کے اعتبار سے 2.5 سے 7.5 فیصد تک ڈیوٹی لگا دی۔ درآمد شدہ پرزوں پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی اور شرحِ سود میں اضافے سے گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں جو عام صارف کی پہنچ سے کہیں دُور ہو چکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق IMC کا قومی ڈیلرشپ نیٹ ورک گاڑیاں فروخت کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ ٹویوٹا کی نہ فروخت ہونے والے گاڑیوں کی تعداد 3000 سے بڑھ چکی ہے۔ نتیجتاً پیداواری پلانٹ بھی اپنی 50 فیصد گنجائش پر چل رہا ہے۔ مالی سال 2019-20ء کا آغاز ہی ملک کے تمام آٹو مینوفیکچررز کے لیے بہت بُرا رہا۔ ٹویوٹا IMC پہلے دو مہینوں یعنی جولائی اور اگست 2019ء میں اپنی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی گاڑی کرولا کے بھی صرف 3708 یونٹس فروخت کر پایا جبکہ پچھلے سال کے انہی مہینوں میں یہ تعداد 8770 یونٹس تھی یعنی 57.7 فیصد کی بڑی کمی آئی۔ اسی طرح ٹویوٹا ہائی لکس کی فروخت بھی اسی عرصے میں 44.6 فیصد کم ہوئی۔ کمپنی نے پچھلے سال کے 1292 یونٹس کے مقابلے میں اِس مرتبہ صرف 716 یونٹس فروخت کیے۔ اس کی SUV فورچیونر بھی اس عرصے میں متاثر ہوئی کہ جس کے پچھلے سال کے 424 یونٹس کی فروخت کے مقابلے میں مالی سال 2019-20ء میں 61.8 فیصد کمی کے ساتھ صرف 162 یونٹس فروخت ہوئے۔ کاروں کی فروخت میں بڑی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی نے اپنی پیداوار کو بھی تقریباً 50 فیصد تک گھٹا دیا ہے۔ فروخت کے اعداد و شمار PAMA کی ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ہونڈا اٹلس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جو ہر مہینے غیر پیداواری دنوں کا سامنا کر رہا ہے۔ پاک سوزوکی نے پہلے پیداوار میں کوئی کمی نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک جم کر کھڑا نہ ہو سکا۔ معلوم ہوا ہے کہ اس نے ملک بھر میں اپنے ڈیلرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی تمام گاڑیوں کے مخصوص ویرینٹس کی بکنگ عارضی طور پر معطل کردیں۔ اس میں مندرجہ ذیل گاڑیوں کے ویرینٹس شامل ہیں:
سوئفٹ DLX
میگا کیری
وِٹارا
کلٹس VXR
آلٹو VX
ویگن آر VXR
یہاں تک کہ نئی 660cc آلٹو کی بکنگ بھی عارضی طور پر معطل کردی گئی ہے کہ جو معاشی بحران کی حقیقی تصویر ظاہر کرتی ہے۔ حکومت کو مقامی آٹو سیکٹر کے مکمل طور پر تباہ ہونے سے پہلے فوراً کچھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایڈیشنل ٹیکس اور ڈیوٹیاں جیسا کہ FED فوراً ختم کر دینی چاہئیں تاکہ انڈسٹری کو سانس لینے کا موقع ملے۔ ورنہ مستقبل میں صورت حال مزید خراب ہی ہوگی۔
اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری کے بارے میں مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔