ایک استعمال شدہ گاڑی کیسے خریدیں: ایک گائیڈ ناتجربہ کاروں کے لیے
بالآخر وہ دن آ گیا اور آپ نے اتنا سرمایہ محفوظ کر لیا ہے کہ اپنے لیے کوئی گاڑی خرید رہے ہیں۔
حقیقت کو سامنے رکھیں کہ اب آپ کی نقدی کار ڈیلرز کے ہاتھ میں ہے اور امکان یہی ہے کہ آپ
بالآخر ایسی گاڑی خریدیں گے کہ جو ڈیلر کی رینٹل کار ہے، لیکن وہ اب اسے اخبار میں کسی
اشتہار یا کسی مشہور ایڈ ویب سائٹ پر اپنے گھر یا دوست کے گھر پر کھینچی گئی چمچماتی
تصویروں کے ساتھ فروخت کر رہا ہے۔ میں کچھ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ پاکستان میں
استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے۔
تو آئیے شروع کرتے ہیں؛ عام سے کپڑے پہنیں، اپنا ولیمے کا سوٹ پہن کر مت جائیں کیونکہ آپ کو
گاڑی چیک کرنے کے لیے بڑی اٹھک بیٹھک کرنا پڑے گی۔ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ جب گاڑی کی
تلاش میں نکلیں تو زیادہ سے زیادہ 2 لوگ ہونے چاہئیں، پوری بارات لے کر نہ پہنچ جائیں کہ جس
میں آپ کا ڈینٹر پینٹر اور آپ کے مکینک دوست، آپ کے تین بھائی اور چند کزن، اور ایک ضد
کرنے والا بچہ بھی ساتھ ہو۔ اگر آپ کا ایک اچھا دوست ہے کہ جو آپ کی گاڑی خریدنے کی مہم کو
دیکھ کر جل نہ رہا ہو اور گاڑیاں چیک کرنے کا کچھ تجربہ بھی رکھتا ہے تو ترجیحاً اسے اپنے ساتھ
لے جائیں۔ میرے خیال میں اسے اچھا سا کھانا کھلا دیں، کام بن جائے گا۔
یہ گائیڈ آپ کے لیے ہے جو اپنی زندگی کے اس اہم مرحلے پر پہلی بار آیا ہے اور اب یا تو اپنے
دوستوں اور خاندان والوں میں سستی گاڑی خریدنے کے حوالے سے سپر ہیرو سمجھا جائے گا یا ایسا
نہ ہوا تو ایک نقصان اٹھانا والا بدھو۔ میرا مشورہ ہے کہ گاڑی کے لیے ادا کی گئی قیمت کبھی ظاہر
نہ بتائیں کیونکہ ہم پاکستانی قیمتوں میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، اور ہر کوئی اپنی جیب میں گاڑیوں کی
قیمتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے۔
گاڑی کی ٹائپ، ماڈل اور کمپنی فائنل کریں:
بہتر یہی ہے کہ ریسرچ کرتے ہوئے خود کو گاڑی کی ایک ماڈل/ٹائپ تک محدود کریں، اپنے بجٹ
میں آنے والی مختلف گاڑیوں کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کنفیوز ہی ہوں گے، اور ہو
سکتا ہے آپ اسکریپ کا نیا ماڈل خرید لیں۔ ذہن استعمال کرتے ہوئے کسی ایک ماڈل کا ذہن بنا لیں کہ
جو نہ صرف آپ کو مطمئن کرتا ہو بلکہ اس سے گاڑی خریدنے کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہوں۔
ایسے ماڈلز کا رخ نہ کریں جو ختم ہو چکے ہوں، یونیک ہوں یا ان کے پارٹس نہ ملتے ہوں۔ ہمارا
لوکل ورکشاپ کلچر یہ ہے کہ استاد اپنے چھوٹے کے سیکھنے کے لیے آپ کی گاڑی کو تجربہ
گاہ کے طور پر استعمال کرے گا۔ اور آپ اپنی پہلی گاڑی کو فرینکنسٹائن کا مونسٹر بنتے نہیں دیکھنا
چاہیں گے (خیبر کے ہیڈلیمپس کے ساتھ پوژو یا وِٹز کا انجن رکھنے والی شیراڈ)۔ آپ کو ایسی گاڑی
چاہیے جو آپ کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے اور قابلِ بھروسہ ہو۔
نئے ماڈل کی بیماری سے چھٹکارا پائیں:
مارکیٹ میں عام تاثر یہ ہے کہ کسی مخصوص سال کی پرفیکٹ گاڑی ڈیلروں کی طے کردہ قیمت
سے زیادہ مہنگی نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر ڈیلر کے پاس ایک نئی کنڈیشن کی گاڑی موجود ہے تو
معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوگا۔ کچھ بھی ہو آپ کے پاس 2014ء کی نئی گاڑی اور 2016ء کی اسی
گاڑی کو خریدنے کا آپشن ہے کہ جسے اس کے مالک نے پہلے دن سے ہی بُری طرح استعمال کیا
ہے۔ فیصلہ کرتے ہوئے عقل کا استعمال کریں، گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ کو دیکھیں، اوڈومیٹر پر یقین نہ
کریں کہ جو تقریباً 80,000 کلومیٹرز ظاہر کر رہا ہے کیونکہ پاکستان میں ہر استعمال شدہ گاڑی ہی
80,000 کلومیٹرز چلی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک اچھی کنڈیشن رکھنے والی گاڑی ذرا سی مہنگی ضرور
ہوگی لیکن یہ لمبے عرصے تک چلے گی۔ اس لیے اپنا وقت اور محنت بچائیں، سستی گاڑی کے چکر
میں نہ پڑیں اور نہ اس دھوکے میں رہیں کہ آپ کو فٹ پاتھ مکینک سے فیکٹری اسٹینڈرڈ مرمت ملے
گی۔ اس سے آپ کا بہت پیسہ ضائع ہوگا اور گاڑی کی ویلیو میں ٹکے کا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک ہائی
وے پر چلی ہوئی گاڑی ہو سکتا ہے مائیلیج میں زیادہ ہو لیکن وہ شہر کے اندر چلنے والی گاڑی سے
زیادہ اچھی کنڈیشن میں ہوگی۔
گاڑی کا پارکنگ ایریا:
کچھ مالکان اپنی گاڑی کی پروا نہیں کرتے، جبکہ کچھ گاڑیوں کا بہت اچھی طرح خیال کیا جاتا ہے،
اس لیے چھوٹی موٹی چیزوں کو نظر میں رکھیں جیسا کہ گاڑی کہاں پارک ہوئی ہوئی ہے، کیا وہ
دھوپ میں اتنی زیادہ کھڑی کی گئی ہے کہ آپ کے خریدنے کے بعد چند سالوں میں ہی اس کا رنگ
ختم ہو جائے گا۔ فرش پر تیل کے داغ، کولینٹ کی لیکیج یا گیئر باکس کی لیکیج کے نشانات دیکھیں۔
اگر آپ کو نظر آئیں تو پرسکون رہیں اور گاڑی کے اردگرد دیکھیں کہ آپ کو کوئی اچھی کوالٹی کا
کار شیمپو نظر آ رہا ہے؛ اگر آ جائے تو سمجھ جائیں کہ گاڑی کا اچھی طرح خیال رکھا گیا ہے۔ اگر
آپ کسی ڈیلر کے پاس ہیں تو یہاں ہر دوسری گاڑی دیسی انداز کے پینٹ کٹنگ کام سے گزری ہوگی،
یہ چمکتی دمکتی اور آنکھوں کو بھلی لگتی ہوگی۔ اس لیے احتیاط کریں، ایسی گاڑی ہر گز نہ خریدیں
کہ جس کا رنگ چمکانے کے لیے گھس دیا گیا ہو۔
مینٹی نینس ریکارڈز:
گاڑی کا مینٹی نینس ریکارڈ طلب کریں۔ کچھ لوگ اس کی تفصیل جمع رکھتے ہیں اور اگر کوئی آپ
کے ساتھ شیئر کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ اگر ریکارڈ کسی 3S ڈیلرشپ پر ہے تو پھر براہ راست
ڈیلرز کے پاس ریکارڈ چیک کریں۔
استعمال کی جانچ (اس گائیڈ کا سب سے اہم حصہ)
باڈی پینلز
گاڑی کو کچھ فاصلے سے دیکھیں اور اس کو اسی قسم کی نئی گاڑی سے کمپیئر کریں۔ باڈی
پینلز میں کوئی بھی ناہمواری یا تبدیلی نظر آئے تو اس گاڑی کو مزید انسپکشن کی ضرورت
ہوگی، اور باریک بینی سے جائزہ لینے والا کوئی بھی شخص اسے چیک کر سکتا ہے۔
صرف باڈی شاپ ایکسپرٹس ہی ایسا نہیں کر سکتے، آپ بھی کر سکتے ہیں۔ بس ہم ذرا
کوشش نہیں کرتے۔ پھر اوپر سے نیچے اور آگے سے پیچھے تک گاڑی کے فٹ بورڈز چیک
کریں؛ پینٹ میں ٹوٹ پھوٹ آپ کو بہت کچھ بتائے گی کہ یہ گاڑی پچھلے مالک کے پاس کس
ماحول میں رہی ہے۔ گاڑی کے اگلے یا پچھلے حصے میں کوئی عدم توازن نظر آ رہا ہو تو
اس گاڑی کو چھوڑ دیں کیونکہ بعد میں اس سے جان چھڑانا مشکل ہوگا۔ اگر آپ کو ذرا سا
اندازہ ہو جائے کہ اس گاڑی پر مرمت کروائی گئی ہے تو یا تو اپنے قریبی پینل بنانے والے
دوست کو مزید جائزے کے لیے لے کر جائیں یا گاڑی کو چھوڑ دیں۔
گیئر نوبس
آپ گیئر نوب کو قریب سے دیکھ کر بھی کسی گاڑی کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلا سکتے
ہیں۔ یہ کھردرا اور بُرے حال میں ہے یا چکنا ہے؟ اگر چمک رہا ہے کہ اس کا امکان زیادہ
ہے کہ یہ گاڑی بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے۔ ویسے یہ آٹومیٹک گاڑیوں کے لیے نہیں ہے
کیونکہ ان میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
فٹ پیڈلز
اگر فٹ پیڈلز پر کلچ پیڈل اور بریک پر ٹوٹا پھوٹا ربڑ نظر آئے، یا آپ پیڈل کے لیورز دباتے
ہوئے اندازہ لگالیں تو یہ اشارہ ہے کہ گاڑی کافی زیادہ چلی ہوئی ہے اور اپنا وقت پورا کر
چکی ہے۔
اسٹیئرنگ اسٹاکس اور سوئچز
اگر ان پر موجود سفید الفاظ تقریباً مٹ چکے ہیں اور انہیں پالش کیا گیا ہے تو اس کا مطلب
ہے کہ گاڑی کم از کم 3,00,000 کلومیٹرز چلی ہوئی ہے۔
رُوف لائنر
ایک لٹکتا ہوا رُوف لائنر بنوانا مہنگا پڑ سکتا ہے اور گاڑی کے الٹنے یا بہت وقت تک دھوپ
میں کھڑے رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ڈور پینلز
گلے سڑے ڈور پینلز یا ٹوٹی پھوٹی ایکسیسریز مرمت کے گھٹیا کام کو ظاہر کرتی ہیں؛ اس
لیے بہت احتیاط کریں۔ سروس اسٹیشن پر دھلائی بھی ڈور پینلز کو بہت نقصان پہنچانے کا
سبب بن سکتی ہے۔
ونڈو چینلز
ایک اچھی طرح الائن کی گئی کھڑکی باآسانی اوپر اور نیچے جائے گی چاہے کتنی ہی مٹی
کیوں نہ ہو۔ اگر یہ ایسا نہ کرے تو دیکھیں کہ ڈور فریم کو کوئی اندرونی نقصان تو نہیں
پہنچا۔
دھیمی ہیڈلائٹس
رینٹل پر استعمال ہونے والی گاڑیوں میں عام طور پر دھیمی ہیڈ لائٹس ہوتی ہیں کیونکہ وہ
رات میں مستقل استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی کبھی زیادہ
چلی ہوئی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس بھی ہلکی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں رات کے وقت مستقل استعمال
کیا جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یہ پرفیکٹ ہوتی ہیں۔
ویدر شیلڈز
فینڈر لائنز، ویدر شیلڈ اور دروازوں پر ٹرم چیک کریں۔ چھوٹے موٹے کریک تو عام ہوتے
ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی بڑا حصہ نہ اُکھڑا ہوا ہو، خاص طور پر مین
اسکرینز کے قریب، یہ گاڑی کو بُری حالت میں رکھنے کا نتیجہ ہے۔
انجن کا شور
گاڑی کو اسٹارٹ کرتے ہوئے CEL (چیک انجن لائٹ) لائٹنگ کو ACC ON پوزیشن پر
اور انجن چلنے کے بعد بند ہوتے دیکھیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو سمجھ جائیں کہ کوئی مسئلہ ہے،
اور مالک نے CEL لیمپ نکال دیا ہے۔ کچھ ہوشیار لوگ CEL کو OIL کی لائٹ سے
parallel میں جوڑ دیتے ہیں، اس لیے ان کے بند ہونے کی ٹائمنگ کا مشاہدہ کریں۔
کسی بھی غیر معمولی آواز کے لیے انجن کو بغور سنیں۔ بیلٹس سلپ کرنے کی آواز تو عام
ہوتی ہے اور اس کی مرمت سستی پڑتی ہے۔ لیکن دھم دھم، چھن چھن یا چھوٹی موٹی
ضربوں کی آوازیں ٹھیک کروانا جیب پر بھاری پڑتا ہے۔ معمولی کلک کی آوازیں بھی قابل
قبول ہیں اور آپ انہیں باآسانی رپیئر کروا سکتے ہیں۔ اگر گاڑی ٹھنڈی ہو تو ریڈی ایٹر کیپ
کھولیں اور دیکھیں کہ اس میں کولینٹ ہے؛ اگر نہ ہو تو ذہن میں رکھیں کہ کولینٹ اور ریڈی
ایٹر فلش پر لاگت آتی ہے۔ انجن بے میں لُوز وائرنگ رکھنے والی گاڑیوں سے دُور رہیں۔ اگر
وائرنگ ٹھیک نہیں ہے تو وہ گاڑی قابلِ بھروسہ نہیں ہو سکتی۔ پھر ایسی گاڑی بھی نہ
خریدیں کہ جن میں ایسی آلٹریشنز کی گئی ہیں جن کے لیے انہیں ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ یا
پھر انجن کی غیر معمولی تبدیلی رکھنے والی بھی جیسا کہ شیراڈ میں وِٹز کا انجن لگا ہو تو۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے اپنی گاڑی لینا خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ پہلی گاڑی خریدنا، چاہے
نئی ہو یا پرانی، آپ کے گھر کے لیے ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ ہم اپنی محنت سے حاصل کی گئی کمائی
خرچ کرتے ہیں تو ہمیں اس کا بہترین نعم البدل ملنا چاہیے؛ کباڑ نہیں۔ ہم گاڑیاں فروخت کرنے والوں
سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ایماندار اور سچائی کے ساتھ کام کریں گے لیکن ہماری بھی ذمہ داری ہے
کہ اپنی پہلی گاڑی خریدتے ہوئے ممکنہ حد تک چوکس اور ہوشیار رہیں۔ بات صرف پیسے بچانے
ہی کی نہیں بلکہ آپ کی فیملی کی سیفٹی کا بھی معاملہ ہے۔ ایک خراب یا کمزور گاڑی آپ کے لیے
ایک خطرہ ہے اور آپ کو یا آپ کے خاندان کر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے ہوشیار
رہیں اور اسمارٹ بن کر فیصلہ کریں۔