دنیا میں توانائی پر منحصر ممالک اکثر عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آنے والی اتار چڑھاؤ کا زیادہ بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ اقتصادی بحران کی صورت میں صورتحال تب اور بھی خراب ہو جاتی ہے جب کوئی عالمی مالیاتی ادارہ ایندھن کی قیمتوں پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیز عائد کرتا ہے۔ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے۔
اس مضمون میں، ہم ایک تفصیلی تجزیہ فراہم کریں گے جس میں وضاحت کی جائے گی کہ کس طرح بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیز پاکستان میں پیٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات کی حتمی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (HSD) پر ڈیوٹیز، ٹیکسز اور دیگر مارجن بہت زیادہ ہیں: پیٹرول پر 107.12 روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر 104.59 روپے فی لیٹر۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار پیٹرول کی 148.51 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی 154.06 روپے فی لیٹر کی ایکس ریفائنری قیمتوں کے علاوہ ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی تفصیلات
ان بھاری اعداد و شمار کو پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PLD)، کسٹم ڈیوٹیز، ڈیلر کمیشن، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مارجن اور ان لینڈ فریٹ ایکوی لائزیشن مارجن میں تقسیم کرتے ہوئے، PLD سب سے اوپر آتی ہے – پیٹرول اور HSD دونوں کے لیے 70 روپے فی لیٹر۔ حالیہ قیمتوں کی نظر ثانی میں، وفاقی حکومت نے لیوی کو پچھلے 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر نئے 70 روپے فی لیٹر کر دیا ہے۔
اسی طرح، کسٹم ڈیوٹیز پیٹرول کے لیے 15.28 روپے فی لیٹر اور HSD کے لیے تھوڑی زیادہ یعنی 15.78 روپے فی لیٹر ہیں۔ ڈیلرز کو 8.64 روپے فی لیٹر کمیشن ملتا ہے، اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں (OMCs) 7.87 روپے فی لیٹر کا مارجن کماتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان لینڈ فریٹ ایکوی لائزیشن مارجن (IFEM) پیٹرول کے لیے 5.33 روپے فی لیٹر اور HSD کے لیے 2.30 روپے فی لیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے پیٹرول اور HSD کی قیمتوں پر کوئی سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا ہے۔
چند دن پہلے، مالیاتی ڈویژن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پیٹرول کی قیمت 255.63 روپے فی لیٹر ہے جبکہ HSD کی قیمت 258.64 روپے فی لیٹر ہے۔
آپ کے خیال میں یہ تفصیلات جو ٹیکس اور ڈیوٹی کی تعداد ظاہر کرتی ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو اس اہم سطح تک لے جانے کی وجہ بن رہی ہیں؟ برائے مہربانی کمنٹس سیکشن میں ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔