پاکستانی آٹو انڈسٹری میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جن میں گاڑیوں کے سی بی یو یونٹس کی درآمد بھی شامل ہے۔ پاکستان میں آٹو کمپنیز، خاص طور پر نئی کمپنیاں، ہزاروں سی بی یو گاڑیاں درآمد کر رہی ہیں جس سے حکومت کو اربوں ڈالر کا خسارے کا سامنا ہے، یعنی کہ ہم برآمدات سے زیادہ درآمدات پر خرچ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خزانہ جناب شوکت ترین نے حال ہی میں سماء ٹی وی کے صدر اور معروف صحافی ندیم ملک کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چھ سے نو ماہ کے لیے سی بی یو گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگا رہی ہے اور دیگر ‘غیر سنجیدہ’ درآمدات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
Government to stop import of completely built up vehicles (CBUs), check ‘frivolous’ imports.
Current Account Deficit $1.6 billion/month @shaukat_tarin https://t.co/9eSJH2wbi6 pic.twitter.com/c8W0mP2Iou— Nadeem Malik 🇵🇰 (@nadeemmalik) November 23, 2021
CBU درآمدات
مالی سال 2021 میں پاکستان میں کل 10513 نئی گاڑیاں (مسافر گاڑیاں، 4×4، وین، پک اپ، 2-وہیلرز اور بسیں) درآمد کی گئیں جبکہ مالی سال 2020 میں یہ تعداد 1,680 تھی۔ اسی طرح مالی سال 2019 میں 3716 یونٹس اور 2018 میں یہ تعداد 7424 یونٹس تھی۔
رواں مالی سال 2022 کے پہلے دو ماہ میں کار کمپنیز نے 103 ملین ڈالر مالیت کی سی بی یو گاڑیاں درآمد کیں جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 47 ملین ڈالر کے مقابلے میں 118 فیصد زیادہ ہیں۔
CKD/SKD درآمدات
رواں مالی سال 2022 کے پہلے دو مہینوں میں، کار کمپنیز نے اپنی گاڑیوں کی مقامی طور پر تیاری کے لیے 369 ملین ڈالرز مالیت کی CKD/SKD کٹس درآمد کیں۔ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 117 ملین ڈالرز کے مقابلے میں نمو کا عنصر 214 فیصد ہے۔
حکومت نے کیوں چھیڑ چھاڑ کی؟
جب نئی آٹو کمپنیز پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھا تو حکومت نے انہیں ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ 100 CBU یونٹس فی ویرینٹ درآمد کرنے کی اجازت دی۔ حکومت کے اس اقدام کا مقصد ان نئی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا کہ وہ مارکیٹ میں اپنی مصنوعات ٹیسٹ کریں اور سرمایہ کاری کرتے ہوئے ان گاڑیوں کو مقامی سطح پر تیار کریں۔
کمپنیز نے حکومتی اقدامات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے 100 یا اس سے زیادہ یونٹس کی پہلی کھیپ درآمد کی اور صارفین کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر ان گاڑیوں جو مقامی سطح پر تیار کرنے کی بجائے CBU یونٹس کی مزید بکنگ شروع کر دی۔
ایک سال کی مدت میں ان کار کمپنیز نے ہزاروں درآمدی CBU گاڑیاں فروخت کیں اور اب بھی مقامی سطح پر ان گاڑیوں کو تیار کرنے کی بجائے فروخت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس سی بی یو گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔