اگر آپ نے لاہور میں ڈرائیونگ کی ہے، تو آپ جانتے ہیں کہ لاہور کی مصروف سڑکوں پر گاڑی چلانا کتنا پریشان کن ہو سکتا ہے۔ لیکن اب اُمید کی ایک نئی کرن نظر آ رہی ہے! پنجاب حکومت نے ٹریفک وارڈنز کی جانب سے کی جانے والی غیر منصفانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہر ضروری قدم اٹھا رہی ہے۔ سب سے اہم اقدام ٹریفک وارڈنز کو باڈی کیمرے سے لیس کرنا ہے۔
لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر، ڈاکٹر اطہر وحید نے مال روڈ پر تعینات وارڈنز کی وردیوں پر باڈی کیمرے لگا کر اس اقدام کا آغاز کیا ہے۔ یہ ایک ہائی ٹیک اَپ گریڈ ہے جس کا مقصد شفافیت اور جواب دہی کو فروغ دینا ہے۔
ان کیمروں کا کیا فائدہ ہے؟ سب سے پہلے، اب کوئی بے ترتیب یا غیر منصفانہ چالان نہیں ہو گا۔ ہر چالان کے لیے اب ویڈیو ثبوت ضروری ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کو ٹکٹ مل رہا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت موجود ہونا چاہیے۔ سب کے لیے یکساں اور منصفانہ کھیل!
لیکن یہ صرف چالان کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ کیمرے احتجاج، عوامی تقریبات، یا سڑک پر کسی بھی مشکوک صورتحال کے دوران بھی کام آ سکتے ہیں۔ انہیں خاموش عینی شاہد سمجھیں جو کبھی کوئی تفصیل نہیں چھوڑتے۔
ڈاکٹر وحید نے ایک اور دلچسپ فائدہ بھی بتایا — یہ کیمرے وارڈنز کی تعیناتی اور ان کے کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے میں بھی مدد کریں گے۔ علاوہ ازیں، ان کا خیال ہے کہ اس قسم کی ٹیکنالوجی عوام اور افسران دونوں کے بہتر رویے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔
ڈالہ کلچر کے خلاف کارروائی
سڑکوں پر نظم و ضبط واپس لانے کی کوشش میں، پنجاب نے ایک نئی فورس — کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) متعارف کروائی ہے۔ یہ خصوصی یونٹ عوامی ہتھیاروں کی نمائش یا دھمکی آمیز رویے — جس کو “دلہ کلچر” کہا جاتا ہے — کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے والے کسی بھی شخص کے خلاف “بلا امتیاز کارروائی” کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا مقصد سادہ ہے: امن بحال کرنا اور دھمکیوں کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنا۔
اے آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ عوامی سطح پر ہتھیاروں کی نمائش کے لیے زیرو ٹالرنس ہے۔ سی سی ڈی افسران کو 21,000 سے زیادہ سیف سٹی کیمروں اور مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں کو ٹریک اور شناخت کرنے کے لیے فوری کارروائی کے واضح احکامات ہیں۔ ٹیکنالوجی اور سخت کارروائی کا یہ امتزاج سی سی ڈی کو ایک اہم برتری دیتا ہے۔
مجموعی طور پر، یہ اقدام صحیح سمت میں ایک بڑا قدم محسوس ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے سمارٹ استعمال سے، لاہور کی سڑکیں شاید تھوڑی کم دباؤ والی اور بہت زیادہ منصفانہ ہو سکتی ہیں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ اقدامات لاہور میں ٹریفک اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے؟