جب سے اورنج لائن کی تعمیر شروع ہوئی ہے، اِس منصوبے میں ایک کے بعد دوسرا مسئلہ سر اٹھاتا رہا ہے۔ یہ بات ہرگز حیران کُن نہیں ہے کہ یہ بہت زیادہ بجلی کھانے والا منصوبہ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ہے ہی نہیں۔ کم از کم موجودہ حالات میں تو ہرگز نہیں۔
تو لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (LESCO) نے انکشاف کیا ہے کہ 90 گھنٹے کے ٹیسٹ رَن کے دوران بجلی کے 27 لاکھ یونٹس خرچ ہوئے۔ یعنی اس کی کُل لاگت 5 کروڑ روپے رہی۔
ان اعداد و شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے LESCO کا اندازہ ہے کہ اورنج لائن اپنے آغاز کے بعد روزانہ ڈھائی کروڑ روپے کی بجلی کھائے گی۔ یعنی ہر مہینے حکومت کو بجلی کے بل کی مد میں 750 ملین روپے کی پڑے گی۔ بلاشبہ یہ بل عام آدمی کی جیب سے ہی ادا ہوگا۔ اس کے بدلے میں یہ لاہور میں 27 کلومیٹر کے ٹریک پر محدود صارفین کو ہی فائدہ پہنچائے گی۔
اس کے علاوہ حکومت کو 60 روپے کا ٹکٹ لگانے کے باوجود سبسڈی کی مد میں 10 ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔ یہ بھی بہت سے لوگوں کے لیے زیادہ کرایہ ہے لیکن اس سے زیادہ بڑھانے سے منصوبے کو نقصان پہنچے گا۔ ان حالات میں یہ منصوبہ ڈیڈلاک کا شکار ہے۔
تقریباً ایک کروڑ روپے کی اضافی سبسڈیز سے حکومت پنجاب پہلے ہی انکار کر چکی ہے۔ ان کا زور محض چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے اس منصوبے پر پیسہ ضائع کرنے کے بجائے ہسپتالوں اور اسکولوں پر خرچ کرنے کا ہے۔ یہ اچھا فیصلہ لگتا ہے لیکن اس منصوبے کی تعمیر پر پہلے ہی اربوں روپے ضائع ہو چکے ہیں۔ بہرحال، اس انکار کے بعد معاملہ ایک مرتبہ پھر نظر ثانی کے لیے پنجاب اسمبلی پہنچ گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے واضح کیا ہے کہ اس منصوبے کو بغیر خسارے کےچلانے کے لیے اس کے ٹکٹ کی قیمت 285 روپے رکھنا ہوگی۔ اس کے باوجود یہ اچھی خبر نہیں ہوگی کیونکہ 6.5 ارب روپے منصوبے کے لیےحاصل کیے گئے قرض کے سود کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔