پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی کابینہ کی منظوری کی منتظر

0 213

وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے وزارت موسمیاتی تبدیلی نے پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی مکمل کرلی ہے اور اسے منظوری کے لیے کابینہ ڈویژن بھیج دیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ملک کو ماحول دوست بنانا چاہتے ہیں اور اس لیے انہوں نے متعلقہ وزارت کو الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی متعارف کروانے کا ایک انقلابی منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔ حتمی پالیسی کابینہ ڈویژن کو بھیج دی گئی ہے اور وزیر اعظم کے دورۂ امریکا سے قبل منظوری کے لیے پیش کی جائے گی۔  میڈیا رپورٹ کے مطابق بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار کے لیے ملک بھر میں مینوفیکچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں موٹر سائیکلیں اور آٹو رکشے روایتی انجنوں کے بجائے الیکٹرک سسٹم میں تبدیل کیے جائیں گے۔ اس پر تجربے کی کامیابی کے بعد کاروں اور کمرشل گاڑیوں کو بشمول بسوں، وینز اور ٹرکوں کو الیکٹرک وہیکل سسٹم پر منتقل کیا جائے گا۔ نتیجتاً دھوئیں کے اخراج میں 70 فیصد کمی کا ہدف حاصل ہونا متوقع ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے انفرا اسٹرکچر بنانے کی خاطر تقریباً 3000 سی این جی اسٹیشنوں کو الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بیٹری چارجنگ اسٹیشنوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ مزید برآں ملک میں موٹرویز اور ہائی ویز کے نیٹ ورک پر بھی بیٹری چارجنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان آٹو انڈسٹری  میں انقلابی تبدیلیاں اور ملک کو ماحول دوست بنانے کے لیے دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے عالمی معیارات پر پورا اترنا چاہتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کے لیے اسلام آباد اور سیالکوٹ میں خصوصی اکنامک زون بنائے جائیں گے۔ اس سے ملک میں ملازمت کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ 

عام ایندھن سے چلنے والے انجنوں سے نکلنے والا دھواں ماحول کو بڑے پیمانے پر زہریلا کر چکا ہے۔ عالمی آٹوموبائل سیکٹر ماحول کو بچانے کے لیے پہلے ہی الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے ادارے  الیکٹرک کاریں بنا رہے ہیں اور اپنی زبردست سیلز کے لیے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی الیکٹرک پالیسی بنائی گئی ہے کہ جو بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے۔ 

دوسری جانب وزارت صنعت و پیداوار  الیکٹرک وہیکل پالیسی کی تیاری کے حوالے سے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے ایک تنازع میں ملوث ہوئی۔ وزارت مانتی ہے کہ اسے ان کی نمائندگی میں تیار کیا جانا چاہیے تھا بشمول وزارت تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، بورڈ آف انوسٹمنٹ، انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے مشاورت کی ضرورت ہے کہ پالیسی بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہے۔ الیکٹرک وہیکل پالیسی کو مقامی آٹو سیکٹر میں صحت مند مسابقت کی فضاء پیدا کرنی چاہیے اور نتیجہ صارفین کے لیے ہر قیمت میں انتخاب متعدد مواقع پیش کرے۔ صاف اور سرسبز ماحول کی جانب سفر کا آغاز تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) ‏2016-21ء‎ کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس پالیسی کو ملک کے آٹو سیکٹر کو مضبوط بنانا چاہیے اور اسی دوران موجودہ مقامی صنعت کی سرمایہ کاری کو تحفظ بھی دینا چاہیے۔ ملک امین اسلم، وزیر اعظم کے مشیربرائے  موسمیاتی تبدیلی، کے مطابق 2030ء تک ملک میں چلنے والی 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرک کاروں کی صورت میں ایک گاڑی چلانے کی لاگت میں کمی آئے گی اور بیٹریاں بنانے کے لیے ملک میں نئے یونٹس قائم کیے جائیں گے۔ اگر الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف حاصل کرلیا جاتا ہے تو پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی ضرورت میں بھی بڑی کمی آئے گی۔ 

البتہ مقامی آٹو انڈسٹری کو الیکٹرک  وہیکل پالیسی کی تیاری پر بڑے خدشات ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور حکومت کی جانب سے تمام گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) لگانے سے کاروں کی فروخت میں پہلے ہی بہت کمی آ چکی ہے۔ گھٹتی ہوئی سیلز سے قطع نظر الیکٹرک گاڑیوں کی جانب قدم بڑھانے کا خیال ماحول کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا کہ جسے اس وقت بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ مقامی آٹو انڈسٹری کو حکومت کے اس قدم کی حمایت کرنی چاہیے اور الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں سرمایہ کاری کرکے ماحول کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نئے مینوفیکچرنگ پلانٹس کی تیاری ملک میں ہزاروں نئی ملازمتیں تخلیق کرے گی اور مقامی آٹو سیکٹر کو عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے میں مدد دے گی۔ 

اپنی رائے نیچے تبصروں میں پیش کریں اور اس معاملے پر مزید اپڈیٹس کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.