وزیر قانون کے مطابق اس سوموار کو بنگلہ دیش کی کابینہ نے کسی کی موت کا سبب بننے والی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے لیے زیادہ سے زیادہ قید کی سزا کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم کا منصوبہ ڈھاکا میں ایک تیز رفتار بس کا نشانہ بننے والے دو نوجوانوں کی موت کے بعد شہر کے طلبہ کی جانب سے آٹھ روز تک کیے گئے مظاہروں پر بنایا گیا تھا۔ ان دو نوجوانوں کی موت نے مقامی شہریوں میں غم و غصے کی زبردست لہر پیدا کردیی تھی جس کے نتیجے میں وہ سڑکوں پر آئے اور حکام سے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی زیر صدارت اجلاس کے بعد وزیر قانون انیس الحق نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ مجوزہ قانون حکم دیتا ہے کہ مجرم کو کسی کی موت کا سبب بننے والی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ پر پانچ سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔ انیس الحق نے مزید کہا کہ جان بوجھ کر لوگوں کے اوپر گاڑی چڑھا دینے پر قتل کی دفعات لاگو ہوں گی جس کی سزا موت ہے۔ کیونکہ حسینہ واجد کی حکمران عوامی لیگ کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہے اس لیے پارلیمان کی جانب سے اس نئی تجویز کو قانون کا حصہ بنانے کی منظوری محض ضابطے کی کارروائی ہوگی۔
29 جولائی کو دو نوجوان ایک نجی ٹرانسپورٹ بس تلے کچل کر مارے گئے تھے۔ دو اموات کا سبب بننے والے حادثات عموماً بنگلہ دیشی دارالحکومت میں اتنا ہنگامہ پیدا نہیں کرتے لیکن یہ دو اموات غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے ذریعے ہونے والی ان گنت اموات کے سلسلے کا حصہ تھیں اور اس واقعے کے ساتھ معاملہ اس نہج تک پہنچ گیا کہ کالج اور یونیورسٹی سطح کے طلبہ کے سامنے ٹریفک قانون کی عدم موجودگی کے خلاف مظاہروں کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ 30 جولائی تک بنگلہ دیش کا دارالحکومت لاکھوں طلبہ کی وجہ سے بند ہو چکا تھا کہ جو ٹرانسپورٹ قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وزارت قانون سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار، جنہوں نے وزارت کو منصوبوں سے آگاہ کیا تھا، ایک مقامی خبری ادارے کو بتایا کہ ایک ترمیم کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو اموات کا سبب بننے والے غیر ذمہ دار ڈرائیورز کے لیے سزا کو بڑھائے گی۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھی اس معاملے پر کابینہ اجلاس کی منظوری دی، جس کا مقصد ٹریفک چند قوانین پر نظرثانی کرنا تھا۔ رواں سال کے اختتام پر انتخابات کے ذریعے اپنی مدت پوری کرنے والی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ان کے سیاسی حریف اس افسوس ناک حادثے کو استعمال کرکے حکومت مخالف لہر پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔ البتہ حزب اختلاف نے اس معاملے میں کسی بھی شمولیت سے انکار کیا۔