وہ کاریں جو پاکستان میں بری طرح ناکام ہوئیں

0 5,128

اکثر و بیشتر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ پاکستان میں ‘بِگ تھری’ یعنی ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کی اجارہ داری ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں، خاص طور پر نئی نسل کو تو بالکل نہیں معلوم کہ ماضئ قریب میں کئی کاریں پاکستان میں متعارف کروائی گئی تھیں اور بدقسمتی سے وہ کسی نہ کسی وجہ سے مارکیٹ میں  ناکام رہیں۔ آج ہم ماضی پر نظر دوڑائیں گے اور بات کریں گے ان پرانی گاڑیوں کے اہم مثبت اور منفی پہلوؤں کی بات کریں گے اور یہ کہ وہ ایک بڑا نام حاصل کرنے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں۔ 

کِیا اسپیکٹرا 

90ء کی دہائی کے وسط میں کِیا پاکستانی مارکیٹ میں ابھرا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر کوئی اچھا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا۔ کِیا نے چند گاڑیاں پیش کیں جن میں کِیا اسپیکٹرا نامی ایک سیڈان بھی تھی جس میں دو انجن آپشنز تھے ایک 1.3L اور ایک 1.6L ۔ البتہ مارکیٹ میں کچھ 1.8L یونٹس بھی موجود ہیں۔ اپنے متاثر کن انجن کے باجود یہ گاڑی متاثر کرنے میں ناکام رہی ایک تو جاپانی گاڑیوں کے مقابلے میں کمزور سیفٹی اور ساتھ ہی کمزور ڈیزائن کی وجہ سے۔ اس گاڑی کی دیکھ بھال پر آنے والی لاگت بھی زیادہ تھی، جو اس کی فوری ناکامی کی ایک وجہ تھی۔ اس میں مناسب کولنگ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اوورہیٹنگ کے مسائل بھی تھے۔ نتیجتاً کِیا اسپیکٹرا ٹمپریٹر گیج کے چوتھے حصے تک بھی گرم ہو جاتی تھی، اس اوورہیٹنگ کی وجہ سے انجن کی ناکامی کے متعدد مسائل بھی سامنے آئے۔ 

پھر وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اس میں بریکنگ کے مسائل بھی تھے۔ مختصراً یہ کہ اس کا power-to-weight تناسب اچھا نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کی ایندھن کھپت بھی اچھی نہیں تھی اور یہی اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ تھی۔ ایندھن کا برے اوسط نے اس گاڑی کی کامیابی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ مندرجہ ذیل نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، خریداروں میں عدم مقبولیت اور بینک فنڈنگ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں کِیا اسپیکٹرا ناکام ہوئی۔ 

کِیا کلاسک 

کِیا کلاسک، جسے عالمی مارکیٹوں میں پرائڈ-بی بھی کہا جاتا ہے، ایک 1300cc سیڈان ہے جو 2000ء میں DFML کی اسمبلی لائنز سے گزری۔ یہ گاڑی پرائڈ ہیچ بیک کا سیڈان ورژن تھی کہ جو 90ء کی دہائی کے وسط میں پاکستانی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی تھی۔ اگر کِیا اسپیکٹرا وہی حیثیت رکھتی تھی جو ہونڈا کے سامنے سوِک کی ہے تو یہ کہنا غلط ہوگا کہ کلاسک کِیا کی سٹی تھی۔ آپ بہت مناسب قیمت پر کِیا کلاسک پا سکتے ہیں تقریباً 1.0L ڈائی ہاٹسو کورے کے نرخوں میں، لیکن کِیا کلاسک کارکردگی کے لحاظ سے ہونڈا سٹی سے پیچھے تھی، لیکن ایک سستی 1300cc گاڑی کے لیے بہت کم قیمت پر دستیاب تھی۔ حیران کن طور پر اس فہرست میں موجود دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں اس کار کو مکینیکل یا الیکٹریکل مسائل کا سامنا نہ تھا، اور اس کے زوال کی وجہ دراصل کِیا کا اپنا زوال ہے۔ جی ہاں، گاڑی دیکھنے میں بھیانک تھی، اپنے وقت کے حساب سے بھی، پھر سیفٹی بھی کوئی نہیں، البتہ اپنی قیمت کے لحاظ سے یہ ایک زبردست گاڑی تھی۔ یہی وجہ کِیا کی ناکامی کی بھی وجہ تھی اور یہ دعوے بھی کہ کِیا ڈیلرشپس اپنی کاروں پر بہت زیادہ پریمیم لیتی تھیں جس نے کیا کلاسک اور اسپیکٹرا کو فیملی کارز کے بجائے ایک ڈیلرشپ بزنس کار بنا دیا تھا۔ 

فیئٹ یونو 

فیئٹ یونو پاکستانی مارکیٹ میں بننے والی پہلی یورپین کار تھی۔ اسے راجا موٹر کمپنی کی جانب سے پاکستان میں کمپلیٹ ناک ڈاؤن (CKD) کٹ کے طور پر اسمبل کیا گیا تھا۔ پیداوار کا آغاز 2001ء میں ہوا اور یہ 2004ء تک جاری رہی کہ جب مینوفیکچرنگ پلانٹ بند کردیا گیا۔ اس گاڑی کا صرف ڈیزل ویرینٹ ہی 1.7D ماڈل میں دستیاب تھا۔ البتہ بڑے پیمانے پر پیداوار روک دی گئی۔ اور بدقسمتی سے کِیا اسپیکٹرا کی طرح یہ گاڑی بھی مارکیٹ میں اپنا نام بنانے میں ناکام رہی۔ اس کی زمانہ قدیم کی شکل و صورت اور سوزوکی کے مقابلے میں گھٹیا نظر آنے والے انٹیریئر کی وجہ سے یہ خریداروں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایک پرانی شکل کے علاوہ اس میں انجن کے شور مچانے کا مسئلہ بھی تھا، یونو چلانے والوں کا دعویٰ تھا کہ انجن کسی ٹرک کے انجن سے بھی زیادہ شور کرتا تھا۔ 

پھر اس میں اگنیشن اور آئیڈلنگ کے بھی مسائل تھے، جن کی وجہ سے اس گاڑی کو اسٹارٹ کرنا کبھی کبھار مسئلہ بن جاتا تھا اور اس مسئلے کی وجہ اس کا ناقص کولینٹ سینسر تھا۔ اسپیکٹرا کی طرح اس میں بھی اوور ہیٹنگ کا مسئلہ تھا، فیئٹ یونو ٹوٹے ہوئے سلنڈر ہیڈ گیسکٹ یا ٹوٹے تھرموسٹیٹ کی وجہ سے زیادہ گرم ہو جاتی تھی۔ اس کی ناکامی کی ایک وجہ بریکنگ سسٹم کی خامی بھی تھی، جو پچھلے بریکس میں کہیں ہائیڈرولک فلوڈ لیکیج کی وجہ سے نرم بریکس رکھتی تھی۔ 

شیورولے اوپٹرا 

میری رائے میں 2000ء کی دہائی میں پاکستان میں سب سے زیادہ خوبصورت نظر آنے والی اور جدید کار شیورولے اوپٹرا تھی۔ یہ بظاہر بہت خوبصورت تھی اور اگر مجھے اجازت دیں تو اتنا کہوں گا کہ ڈوج چارجر سے ملتی جلتی تھی۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، اسے ایک اطالوی کمپنی پنن فارینا نے ڈیزائن کیا تھا جس نے حال ہی میں اپنی زبردست باتستا کی رونمائی کی ہے۔ یہ تو اچھی باتیں ہوگئیں لیکن ان سے ہٹ کر اس گاڑی کے دیگر پہلو مثبت نہیں تھے۔ سب سے پہلے یہ کہ اس میں زیادہ تر ڈیوو کے پرزے تھے جو اس وقت ایک اچھی کمپنی شمار نہیں ہوتی تھی۔ اوپٹرا نے یورو NCAP کریش ٹیسٹ میں بین الاقوامی سطح پر 5 میں سے صرف دو اسٹارز پائے۔ سائیڈ سے ٹکر کی صورت میں یہ بہت خطرناک تھی کیونکہ اس گاڑی کو بنانے میں سب سے کمزور حصے یہی تھے۔ اس کے علاوہ ڈے ٹائم رننگ لائٹ ماڈیول کی وجہ سے کہ جو آگ پکڑ سکتا تھا، 2004ء او ر2005ء ماڈل کو واپس بھی لیا گیا۔ میکانیکی طور پر انجن زبردست تھا، لیکن چلانے والوں کو ٹرانسمیشن کے مسائل کا سامنا رہا۔ اس میں گاڑی کو چلاتے ہوئے گیئر سلپنگ بھی شامل ہے۔ 

عمومی طور پر وائرنگ میں مسائل تھے جبکہ بریکنگ بھی ناکارہ تھی، ایسا لگتا تھا کہ انہیں کارڈ بورڈ سے بنایا گیا ہے۔ شہر کے اندر ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کا جلد خاتمہ ہو جاتا اور آپ کو دوسری گاڑیوں کے مقابلے میں پیڈز بار بار تبدیل کروانے پڑتے۔البتہ اوپٹر کی شکل و صورت ایسی تھی جس کی اس زمانے میں جنرل موٹرز سے توقع نہیں تھی، لیکن پرزوں کے معاملے میں کمزوری ظاہر کردی۔ جیسا کہ گاڑی کے اندر گیس فلر فلیپ باآسانی زنگ آلود ہو جاتا اور اگر آپ خیال نہ رکھیں تو باآسانی ٹوٹ جاتا تھا۔ 

شیورولے جوائے 

شیورولے جوائے 2006ء میں پیش کی گئی تھی اور اس گاڑی کے حوالے سے ردعمل کچھ خاص نہ تھا۔ اس کی قیمت 5.85 لاکھ روپے سے شروع ہوتی تھی جو اس زمانے میں کسی ہیچ بیک کے لیے بہت زیادہ تھی۔ اسے 1.0L انجن کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا جو بہت اچھا انجن نہ تھا۔ کیونکہ زیادہ تر افراد نے اسے قابل ہی نہ سمجھا اس لیے اس گاڑی کا اپنا قصور ہی کم دکھائی دیتا ہے پھر اس میں پاکستان میں تب مقبول ہیچ بیکس سوزوکی کلٹس اور ہیونڈائی سینٹرو کے مقابلے میں کچھ اضافی پیش کرنے کو بھی نہیں تھا۔ جنرل موٹرز کی کاریں پاکستان میں کبھی بھی اچھا اثر نہیں ڈال پائیں، اور ہم شیورولے اوپٹرا اور شیورولے کروز کے مقابلے میں ایسا دیکھ چکے تھے اس لیے اس گاڑی کی ناکامی کچھ حیران کن نہیں تھی۔ 

چیری QQ 

وہ جو نہیں جانتے جان لیں کہ چیری QQ دراصل شیورولے جوائے کی چینی نقل تھی۔ اب جبکہ زیادہ تر لوگوں کو جوائے ہی پسند نہ تھی؛ تو یہ نقل کن بلندیوں کو چھوتی اس کا اندازہ لگا لیں۔ نہ صرف یہ کہ دیکھنے میں بھیانک تھی، بلکہ چینی کاروں کے حوالے سے تذبذب کی کیفیت بھی اپنی جگہ تھی۔ اس گاڑی کے مالکان نے 3000 کلومیٹر تک پہنچنے پر بھی انجن سے آوازیں آنے کی شکایت کی جس کی بڑی وجہ انجن کرینک شافٹ کا مناسب انداز میں نہ بنایا جانا تھا۔ ایک اور بڑی خامی گیئر شفٹ تھی۔ ایک سال کے عرصے کے بعد اس گاڑی میں گیئر تبدیل کرنا ایک باقاعدہ کام بن جاتا تھا اور خواتین اور بزرگ ڈرائیورز کے لیےیہ ایک بڑی مصیبت بن گئی۔ تیسری بڑی خامی تھی اس کا الیکٹریکل سسٹم جس میں مالکان کو اچانک اسٹیریو کی آواز بڑھنے اور لائٹوں کے جلنے بجھنے کا سامنا رہتا۔ میں اپنی گاڑی میں تو ہرگز ایسا نہیں دیکھنا چاہوں گا، بالخصوص جب میں اکیلا ہوں۔ بلاشبہ بہت سارے عوامل چینی جوائے کی ناکامی کا باعث بنے، جس میں کوئی جوائے نہیں تھا۔ 

اس کے علاوہ ہیونڈائی ایکسل، ہیونڈائی سینٹرو، کِیا اسپورٹیج اور ایڈم ریوو جیسی گاڑیاں بھی تھیں جن کو اچھے ردعمل کا سامنا نہیں رہا اور ان کے مستقل کی وجہ سے جاپانی برانڈ یہاں طویل عرصے سے چھائے ہوئے ہیں۔ البتہ ہمارا ماننا ہے کہ وقت اب تبدیل ہونے والا ہے اور یہ بیشتر کمپنیاں اب بدل چکی ہیں، کِیا کو ہی لے لیں جو اب دنیا کا 7واں سب سے زیادہ ویلیو رکھنے والا برانڈ ہے اور ان کی گاڑیاں سیفٹی، کوالٹی اور بھروسہ مندی کے لحاظ سے ایک بڑا نام بن چکی ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ یہاں کے لیے مستقبل کیا ہے اور آنے والے برانڈز کس طرح بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.