ناقص ہونڈا وِزل اور فِٹ ہائبرڈ کی پاکستان درآمد
پاکستان میں دو طرح کی گاڑیاں بہت زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ اول سفید ٹویوٹا کرولا XLi اور دوئم درآمد شدہ گاڑیاں۔ آپ دوران سفر کسی سگنل پر رک کر ایک نظر آس پاس دوڑائیں تو آپ کو درآمد شدہ گاڑیاں ضرور نظر آئیں گی۔ ان میں بھی زیادہ تعداد جاپان سے منگوائی گئی گاڑیوں کی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اب سے دس سال قبل ٹویوٹا وِٹز پہلی بار نظر آئی تو جیسے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور وہ چنے کی طرح بکنے لگی۔ ٹویوٹا کی دلکش گاڑیوں سے شروع ہونے والے اس سلسلے میں بعد ازاں ہونڈا بھی شامل ہوگئی اور ان کی دو گاڑیاں – کروس روڈ اور وِزل بہت پسند کی جانے لگیں۔ پھرمزید برانڈز کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ہمیں کئی ایک خوبصورت اور مختصر گاڑیاں نظر آتی رہیں۔
یہ بات مجھے آج بلومبرگ کا ایک مضمون پڑھتے ہوئے یاد آئی جو 10 جولائی 2014ء کو شائع ہوا تھا۔ مضمون نگار نے ہونڈا کی جانب سے ‘ناقص کنٹرول’ کے باعث واپس منگوائی گئی ہونڈا وِزل اور ہونڈا فِٹ ہائبرڈ کا ذکر تھا۔ یہ سافٹویئر کی ایسی خرابی تھی کہ جس سے گاڑی اور مسافروں کو شدید خطرہ لاحق تھا اسی لیے جاپانی کار ساز ادارے نے ایک لاکھ 75 ہزار گاڑیوں کو دنیا بھر میں قائم دفاتر میں فی الفور واپس منگوایا تاکہ سافٹوئیر اپڈیٹ سے یہ خرابی دور کی جاسکے۔ اس مسئلہ کے باعث صرف جاپان میں 11 حادثات ہوچکے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے ہونڈا نے وِزل اور فِٹ کو ڈیول کلچ 7 اسپیڈ ٹرانسمیشن میں خرابی بھی سامنے آئی تھی۔
یہ مضمون پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ اس تاریخ سے پہلے اور بعد میں پاکستان منگوائی گئی گاڑیوں میں کیا یہ مسئلہ نہیں ہوسکتا؟ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ گاڑیاں فیکٹری سے براہ راست ہمارے ملک پہنچتی ہیں اور آج بھی اگر آ پ پاک ویلز پر موجودہ استعمال شدہ گاڑیوں کا صفحہ ملاحظہ کریں تو سینکڑوں ہونڈا وِزل 2015 مل جائیں گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جو گاڑیاں پاکستان لائی جا رہی ہیں وہ ان مسائل سے پاک ہوچکیں جس کی وجہ سے ہونڈا کو دنیا بھر میں سبکی اٹھانا پڑی؟ یہ سوال میرے ذہن میں ایسے بھی آیا کہ پاکستان میں ہونڈا کی جانب سے گاڑیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی دفتر یا کوئی کارخانہ موجود نہیں۔ میں نے گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ایک صاحب سے جب اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا “یہاں سے اپنی مقامی تیار شدہ گاڑیاں ٹھیک ہوجائیں تو بڑی بات ہوگی!”
ٹویوٹا پریوس جب پہلی بار درآمد ہوئی تو بہت سے صارفین نے گاڑی کی بیٹری خراب ہونے کی شکایت کی تھی۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ خراب بیٹریوں والی گاڑیوں کا کیا ہوا لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اسے کسی اچھے مکینک سے تبدیل کروالیا گیا ہوگا۔ کیوں کہ بیٹری ایک ایسی چیز ہے جو باآسانی نکالی اور لگائی جاسکتی ہے لیکن ہونڈا وِزل میں آنے والا سافٹویئر کا مسئلہ صرف کمپنی ہی ٹھیک کرسکتی ہے۔
سال 2013 کے آخر میں پیش کی گئی ہونڈا وِزل کو پاکستان میں 2014 کے وسط میں دیکھا جانے لگا تھا۔ اس سے قبل ہونڈا فِٹ 2011 سے پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب ہوچکی تھی۔ ان دونوں گاڑیوں میں ڈیول کلچ والا مسئلہ جون 2013 اور فروری 2014 میں تیار کی گئی گاڑیوں میں پیش آیا۔ اس وقت 10,424 وِزل اور 70,929 فِٹ ہائبرڈ (مجموعی تعداد 80 ہزار سے زائد بنتی ہے) کو مسئلہ حل کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ سافٹویئر کا مسئلہ کافی پیچیدہ تھا اور عام استعمال میں پریشانی کا باعث بن سکتا تھا۔ میں نے پاک ویلز پر ان گاڑیوں کو تلاش کیا تو مجھے 9 ہونڈا فِٹ ہائبرڈ نظر آئیں جو 2013 اور 2014 کے عرصہ میں تیار کی گئی تھیں۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ ان گاڑیوں میں دریافت شدہ مسئلہ حل ہی نہ کیا گیا ہو۔ یا پھر یہ گاڑیاں سافٹویئر کی خرابی کا علم ہونے پہلے ہی پاکستان لائی جا چکی ہوں۔
میری تحریر کا مقصد ہونڈا کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کروانا ہے جو پاکستانی صارفین کو درپیش ہیں۔ اس لیے تجویز یہ ہے کہ ہونڈا ایٹلس تمام نئی ، استعمال شدہ اور برآمد شدہ گاڑیوں کو سافٹویئر اپڈیٹ فراہم کریں بالخصوص ان گاڑیوں کو جن میں نقص پایا گیا تھا۔ اس سے نہ صرف انسانی جانوں کا لاحق خطرات دور ہوسکیں گے بلکہ ہونڈا پر صارفین کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ملک میں رائج کمزور نظام سےناجائز فائدہ اٹھانا ہونڈا جیسے معروف کار ساز ادارے کو زیب نہیں دے گا اس لیےکمپنی کو چاہیے کہ وہ خود اس معاملے پر سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل حل کرنےکے لیے اقدامات اٹھائے۔ ہم قطعاً ہونڈا کی گاڑیاں لینے پر حوصلہ شکنی نہیں کر رہے بلکہ صرف اپنے قارئین کو آگہی فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ کسی بڑی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ ہم اپنے قارئین کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ لاکھوں روپے گاڑی خریدنے پر خرچ کرنے سے قبل تحقیق ضرور کرلیں تاکہ مستقبل میں خدانخواستہ آپ کو اپنے فیصلے پر پشیمانی نہ ہو۔

