
پاکستان میں معیشت کے سکڑنے کے عمل کے ساتھ اقتصادی حالات سنگین بحران سے دوچار ہیں، جو آٹو انڈسٹری میں آنے والے نئے اداروں کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں اور اسٹیک ہولڈرز کا ماننا ہے کہ ان اداروں کے لیے اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔ نئے ادارے پاکستان کے آٹو سیکٹر میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ داخل ہوئے، لیکن موجودہ صورت حال ان کے وجود کو کچے دھاگے سے جوڑے ہوئے ہے۔ کیا حکومت اپنی پالیسیوں پر ازسرِ نو غور کرکے اُن میں تسلسل لائے گی یا بہت دیر ہو چکی ہے؟ ہمیں اس کا نتیجہ پانے کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) نے حال ہی میں مالی سال 2019-20ء کے پہلے مہینے کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق جولائی 2019ء میں 42 فیصد کمی کے ساتھ 10,968 یونٹس فروخت ہوئے جبکہ 2018ء میں اسی مہینے میں 18,875 یونٹس فروخت ہوئے تھے۔ ہم بھی ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل گراوٹ کے بارے میں گاہے بات کرتے رہے ہیں لیکن اس بدترین صورت حال کے پس پردہ ہے کیا؟ بلاشبہ کوئی ایک وجہ تو نہیں ہے بلکہ متعدد عوامل ہیں جو مل کر آٹو انڈسٹری کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ سب سے پہلے حکومت کی جانب سے پالیسیوں میں بار بار تبدیلی نے سرمایہ کاروں کو غیر یقینی کیفیت سے دوچار کیا ہے۔ مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگانے سے فروخت کم ہوگئی اور یوں سیکٹر کو مزید دھچکا پہنچا۔ اسی وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی تیزی سے ہونے والی ریکارڈ کمی نے بھی آٹو میکرز کو اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور کیا۔ گزشتہ سال میں روپے کی قدر میں تقریباً 26 فیصد کمی آئی جس نے اس عرصے میں آٹو سیکٹر کی مجموعی حالت پر منفی اثرات مرتب کیے۔
مزید یہ کہ completely built units (CBUs) پر ڈیوٹی بھی حکومت کی جانب سے بڑھا کر 30 سے 37 فیصد کردی گئی۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ حکومت نے گاڑیوں کی تمام کیٹیگریز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) نافذ کردی جو پہلے صرف 1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن رکھنے والی مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں پر 10 فیصد کے حساب سے لی جاتی تھی۔ اس قدم نے نئے آنے والے اداروں کو خاص طور پر متاثر کیا جو 2000cc سے زیادہ انجن کی گنجائش رکھنے والی ہائی-اینڈ گاڑیاں بنا رہے ہیں کہ جن پر 7.5 فیصد FED لی جا رہی ہے۔ مزید برآں بینک کی شرحِ سود بھی 11 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ پہلے 30 سے 35 فیصد کاریں لیز پر تھیں۔ لیکن اب ہرگز ایسا نہیں ہے، جس سے سیلز متاثر ہو رہی ہیں۔ گاڑی لیز کروانے سے پہلے صارفین شرحِ سود میں کمی کے انتظار میں ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق صارفین کی قوتِ خرید تیزی سے کم ہوئی ہے اور ایک گاڑی خریدنا اب لوگوں کی اولین ترجیح نہیں رہا۔
صنعت میں نئے اداروں کی آمد کو بہت سراہا گیا تھا کیونکہ اس سے موجودہ چند آٹو مینوفیکچررز کی اجارہ داری ختم ہونے کا امکان تھا۔ لیکن حالات توقع کے مطابق نہیں رہے۔ اس کی ایک مثال کِیا اسپورٹیج کی ہے کہ جس کا اعلان پہلے 35 لاکھ روپے کی قیمت کے ساتھ کیا گیا لیکن باضابطہ لانچ کے موقع پر اس کی قیمت تبدیل کرکے 49 لاکھ کردی گئی۔ کِیا حکومت کی جانب سے ADP 2016-21 کے اجراء کے بعد مقامی آٹو سیکٹر میں آنے والا پہلا ادارہ ہے۔ کمپنی نے نئے آٹو پلانٹ کے قیام کے لیے 175 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جو سالانہ 50,000 یونٹس کی پیداوار کی گنجائش رکھتا ہے۔ چند ماہرین کا ماننا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت اگست کے مہینے میں مزید کم ہو سکتی ہے اور اگلے چند ماہ تک صورت حال یونہی رہ سکتی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران گاڑیوں کی قیمت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جس نے نئے اداروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ البتہ امریکی ڈالر اب مستحکم ہو گیا ہے، جو آٹو انڈسٹری کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ تمام نئے اداروں کو اب سخت صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ وہ درمیانی رینج کی یا ہائی-اینڈ گاڑیوں کے ساتھ آئے کہ جو 1800cc سے زیادہ کی ہیں۔ صارفین کی قوتِ خرید پہلے ہی کم ہو چکی ہے اور یوں مہنگی گاڑیوں کی جانب اُن کی توجہ بہت کم ہے۔ان میں سے بیشتر نئے ادارے مزید ماڈلز کا اعلان کرنے سے پہلے مارکیٹ میں صارفین کا اعتماد حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔
PAAPAM کے چیئرمین محمد اشرف شیخ کہتے ہیں کہ گاڑیوں کی قیمتیں صارفین کی قوتِ خرید سے کہیں زیادہ ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے نئے ادارے اپنی سیلز کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ ادارے تک سیلز میں اتنی زیادہ کمی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ نئی پیش کی گئی گاڑیوں کی قیمتیں اپنی لانچ کے بعد 20 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں، جو مارکیٹ کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی سرمایہ کاری یا تو رک چکی ہے یا سست پڑ گئی ہے۔ اس وقت نئے اداروں کو مارکیٹ میں بقاء کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایک اور کوریائی بڑے ادارے ہیونڈائی کو بھی مقامی مارکیٹ میں اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کے لحاظ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ نسان اور رینو (رینالٹ) تو اپنے منصوبوں کا اعلان تک نہیں کر رہے۔ محدود فروخت کی وجہ سے نئے ادارے منافع حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور بالآخر اپنی سرمایہ کاری کو لپیٹتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ مختصر مدت میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی، ہو سکتا ہے چند مہینوں میں حالات بہتر ہو جائیں۔ حکومت کو ان اداروں کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ ماحول دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مقامی شعبہ تبھی آگے بڑھ سکتا ہے جب سرمایہ کاری میں تحفظ کا احساس ہو۔ ورنہ آٹو سیکٹر کو آگے لے جانے کے لیے کی گئی تمام محنت جلد ہی ضائع ہو جائے گی۔
فروخت میں کمی نے موجودہ آٹو مینوفیکچرز کو بھی پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ ٹویوٹا انڈس ، ہونڈا اٹلس اور پاک سوزوکی ان سب نے اپنے آپریشنز ڈھائی اور دو شفٹوں سے گھٹا کر محض ایک شفٹ تک محدود کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ ملازمتیں بھی کافی کم کی گئی ہیں۔ گزشتہ دہائی میں آٹو انڈسٹری کو کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بہرحال، حکومت کو قدم اٹھانے اور ملک میں موجود تمام آٹو کمپنیوں کے لیے برابر کا میدان فراہم کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر نئے اداروں کے لیے۔ سیکٹر میں ان کی موجودگی مقابلے کی فضاء کو بڑھائے گی اور نتیجہ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کی صورت میں نکلے گا۔ حکومت کی جانب سے مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں موجودہ اقتصادی تنزلی کی صورت حال سے نمٹا جاسکے۔ ہمیں امید ہے کہ آٹو انڈسٹری مقامی مارکیٹ میں متعدد آٹو مینوفیکچررز کے مقابلے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پھلے پھولے گا۔
اپنی رائے نیچے تبصروں میں دیجیے۔ آٹوموٹو دنیا کی دوسری خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔