حکومت گاڑیوں پر ویلتھ ٹیکس لگانے کا منصوبہ بناتے ہوئے

0 210

حکومت منقولہ اثاثہ جات پر ویلتھ ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ 5,200 ٹیرف لائنز پر کسٹمز ڈیوٹی بھی بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

نئی گاڑی خریدنا سستا نہیں ہے۔ بالخصوص پاکستان میں کہ جہاں بہت زیادہ ٹیکسز نے کسی شخص کے لیے اپنی زندگی میں ایک مکمل نئی کار خریدنا بہت بڑی کامیابی بنا رکھا ہے۔ لیکن اب جبکہ ہماری نئی حکومت زیادہ ریونیو حاصل کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے، تو لگتا ہے یہ بھی گزشتہ حکومت کے نقش قدم پر چلے گی، جس نے ریونیو کلیکشن بڑھانے کے لیے 2 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی لگائی تھی۔

بالخصوص حکومت بالآخر گاڑیوں پر درآمدی عرصے کو 3 سال سے گھٹا کر 2 سال اور جیپوں کے معاملے میں امپورٹ پیریڈ کو 5 سال سے گھٹا کر 3 سال کردے گی۔

یہی نہیں بلکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل فونز، سگریٹ اور سینکڑوں دیگر اشیاء بھی شکار بنیں گی اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

زیادہ سے زیادہ کسٹمز ڈیوٹی اس وقت 20 فیصد ہے اور اضافہ اسے 23 فیصد تک لے جائے گا۔ اس سے درآمدی مرحلے پر سیلز ٹیکس کلیکشن میں مدد ملے گی۔ بلاشبہ 2 سے 3 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی افراط زر میں اضافہ کرے گی، لیکن حکومت کو ریونیو میں 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز ملیں گے۔

ایک شاندار شخصیت تو ہیں لیکن ہمارے نئے وزیر خزانہ اضافی ٹیکسز حاصل کرنے کے لیے ایک نئی مؤثر پالیسی ترتیب دینے میں ناکام رہے، نتیجہ منقولہ اثاثہ جات پر ٹیکس مزید بڑھانے کے امکانات کی صورت میں نکلا۔ کیونکہ پاکستان کافی مقروض ہے، پچھلی حکومتوں کے کارناموں کی وجہ سے، اس لیے ٹیکسز اور قیمتوں میں فوری کمی کا امکان بھی بہت کم ہی ہے۔

نئی حکومت ملک چلانے کے لیے کسی نہ کسی طرح ٹیکسز جمع کرے گی، جو گاڑیوں پر اضافی لگژری ٹیکسز کی صورت میں آتا ہے جو پہلے ہی کسی لحاظ سے بھی سستی یا معقول قیمت پر نہیں ہے۔ ممکنہ طور پر یہ وہ تبدیلی نہیں جو ہم چاہتے تھے لیکن دیکھتے ہیں مستقبل سے کیا برآمد ہوتا ہے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.