حال ہی میں، 20 جون کو سپریم کورٹ نے ایک نیا فیصلہ جاری کیا کہ جس کے مطابق تمام سرکاری اداروں کا لگژری گاڑیوں کے استعمال اور اجراء کے حوالے سے یکساں پالیسی کا پابند ہونا ہوگا۔ خدمات اور انتظامی محکمے نے ان احکامات کی سختی سے تعمیل کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف یہ گاڑیاں اب بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، محکمہ پولیس اور دیگر سرکاری دفاتر کے حکام کے استعمال میں ہیں۔ باوجود اس کے کہ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو 149 لگژری گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا تھا کہ جو تحویل میں لی جا چکی ہیں اور اب حکومت کے زیر انتظام ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر بھی خدشات کا اظہار کیا کہ ان گاڑیوں کو کہاں رکھا جائے گا اور مستقبل میں کس قانون کے مطابق ان گاڑیوں کو استعمال کیا جائے گا؟ صوبائی حکومت نے لگژری گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے ایک نیا نوٹیفکیشن جمع کروایا۔ نوٹس میں کہا گیا کہ یہ گاڑیاں صرف مخصوص کاموں کے لیے 25,000 روپے روزانہ کرائے پر ہی استعمال کی گئیں۔ عدالت نے صوبائی حکومت کو گاڑیاں کرائے پر چلانے سے روک دیا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے لگژری گاڑیوں کو کرائے پر دینے کے معاملے پر حکومت سندھ کی سرزنش کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے لگژری کاروں کے حوالے سے اس نوٹس کو غیر قانونی قرار دیا۔ سماعت 28 جون تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
اس معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے سخت قدم اٹھانے کی توقع ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدیداران کی جانب سے انتہائی لگژری گاڑیوں کے استعمال کا رحجان پاکستان میں نیا نہیں ہے، لیکن ایسے قوانین موجود ہیں جن پر تمام عہدیداروں کو عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت اس معاملے میں دہائیوں سے تذبذب کا شکار رہی ہے۔
قانون کے مطابق کسی بھی اعلیٰ عہدے پر موجود حکومتی افسر کو صرف 1300 cc تک کی گاڑی چلانے کی اجازت ہے جبکہ سرکاری گاڑیاں سب 1300 cc سے اوپر کی ہیں۔ یعنی وہ تمام سرکاری عہدیدار جو لگژری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ ٹویوٹا لینڈ کروزر، پراڈو، ویگو اور فورچیونر وہ سب قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مزید خبروں کے لیے دیکھتے رہیے PakWheels.com۔