گاڑیوں کی امپورٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، PBS کی رپورٹ

0 232

جون 2019ء کے لیے ادارۂ شماریات پاکستان (Pakistan Bureau of Statistics)کے اعداد و شمار کے مطابق گاڑیوں اور فاضل پرزوں کی درآمد میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے درآمدات کم کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔ 

موجودہ حکومت ملک میں درآمدات کو کم کرنے کی خواہش مند ہے اور اِس لیے آٹوموبائل انڈسٹری میں بھی درآمدات کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ وزارت تجارت نے 15 جنوری 2019ء کو SRO 52(I)/2019 جاری کیا جس کے مطابق امپورٹڈ ماڈلز کی گاڑیوں پر ٹیکس اور ڈیوٹیز پاکستان کے شہریوں یا پاکستان میں وصول کنندہ کی جانب سے غیر ملکی زرِ مبادلہ کی صورت میں ادا کی جائیں گی کہ جس کے لیے بینک اِن کیشمنٹ سرٹیفکیٹ بھی ضروری ہے۔ یہ مخصوص سرٹیفکیٹ غیر ملکی ترسیلِ زر (remittance) کی مقامی کرنسی میں تبدیلی کا ثبوت ہے۔ یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ترسیلِ زر بیرونِ ملک سے گاڑی بھیجنے والے پاکستانی شہری کے اکاؤنٹ سے کی گئی ہو۔ اگر پاکستان میں ان کا اکاؤنٹ نہ ہو تو ترسیلِ زر ان کے کسی خاندان کے فرد کے اکاؤنٹ میں موصول ہونی چاہیے۔ 

موجودہ مالی سال کے دوران Completely Built Units یعنی CBUs کی درآمد 222.01 ملین  ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 456.18 ڈالرز تھی، یوں اس میں 51.33 فیصد کمی آئی۔ اسی طرح موٹر سائیکل درآمدات بھی 26.60 فیصد کی کمی کے ساتھ 5.72 ملین ڈالرز سے گھٹ کر موجودہ مالی سال میں 4.20 ملین ڈالرز ہو چکی ہیں۔ ہیوی گاڑیوں، بشمول بسوں اور ٹرکوں، کی درآمد بھی اس عرصے میں 34.02 فیصد کی کمی کے ساتھ 234.58 ملین ڈالرز سے گھٹتے ہوئے 154.78 ملین ڈالرز ہو چکی ہے۔جولائی 2018ء سے جون 2019ء کے درمیانی عرصے میں CBUs کی مجموعی درآمد69645.30 فیصد کمی کے ساتھ  .49 ملین ڈالرز سے 381.00 ملین ڈالرز ہو چکی ہے۔ 

Completely Knocked Down یعنی CKD یونٹس کی درآمد میں زوال نسبتاً کم آیا کہ جس میں CKD یونٹس کی مجموعی درآمدات 1321.49 ملین ڈالرز سے 5.57 فیصد کم ہوتے ہوئے 1247.82 ملین ڈالرز ہوئیں۔ ہیوی گاڑیوں کی درآمد15.76 فیصد کم ہوکر 406.08 ملین ڈالرز سے 342.08ملین ڈالرز رہ گئی جبکہ موٹر سائیکلیں بھی 17.94 فیصد کمی کے ساتھ 106.37 ملین ڈالرز سے گھٹتے ہوئے 87.29 ملین تک پہنچیں۔ البتہ اس کیٹیگری میں موٹر کاروں کی درآمد میں  1.16 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا جو گزشتہ سال کے 809.03 ملین ڈالرز کے مقابلے میں اس سال 818.43 ملین ڈالرز کی رہیں۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد محدود کرنا اور یوں مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کی طلب کو بڑھانا ہے۔ 

دوسری جانب  امپورٹڈ پارٹس اور ایکسیسریز کی کُل درآمدی مالیت بھی 14.88 فیصد کمی کے ساتھ گزشتہ سال کے 603.27 ملین ڈالرز سے گھٹتے ہوئے اِس بار 513.51 ملین ڈالرز رہ گئی۔  آٹوموبائل انڈسٹری کی مجموعی درآمدات 2892.20 ملین ڈالرز کے مقابلے میں 20.26 فیصد کمی کے ساتھ اِس سال 2306.38 ملین ڈالرز رہیں۔ 

گاڑیوں کی درآمدات کو محدود کرنے کی کوششیں اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی شرح  ملک کی مجموعی درآمدات میں کمی کی اہم وجوہات رہیں۔ پاکستانی کرنسی گزشتہ ایک سال میں تقریباً 34 فیصد تک گری ہے، جس نے ملک کے آٹو مینوفیکچررز کو اپنی گاڑیوں کی قیمتیں  بار بار بڑھانے پر مجبور کیا۔ اس نے صنعت کو مزید متاثر کیا کیونکہ نئے سرمایہ کار ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ البتہ درآمد شدہ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک اچھا قدم ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تسلسل لانے کی بھی ضرورت ہے۔ مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں پر اضافی ڈیوٹی اور ٹیکس واپس لیے جانے چاہئیں تاکہ نئے اداروں کو مقامی آٹو سیکٹر میں پورے اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کی سہولت ملے۔ 

آپ آٹو سیکٹر کی موجودہ صورت حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ہمیں نیچے تبصروں میں ضرور بتائیں اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.