پاکستان میں گاڑیوں پر عائد آسمان کو چھوتے ٹیکس اور ڈیوٹیاں گزشتہ چند دنوں سے زیرِ بحث موضوع ہیں۔ خام مال کی درآمد پر 5 فیصد ایڈوانسڈ کسٹمز ڈیوٹی (ACD) اور کاروں کی تمام کیٹیگریز پر 2.5 سے 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کے علاوہ گاڑیوں پر متعدد دیگر ٹیکس بھی ہیں۔ حکومت نے 2019-20ء کے لیے اپنے پہلے بجٹ میں ٹیکس اور ڈیوٹی کی کئی بھاری شرحوں کا اعلان کیا تھا، جن میں سے کچھ ٹائپنگ کی غلطی کے نام پر واپس لے لی گئی تھیں۔ حکومت اب تک آٹوموبائل انڈسٹری کے حوالے سے غیر مستقل پالیسیوں پر نہ صرف عوام بلکہ مارکیٹ کے اندرونی حلقوں کی بھی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ سال 2019-20ء کے لیے سالانہ ٹوکن ٹیکس کا اعلان مالیاتی بل میں کیا گیا تھا۔ پچھلے بلاگ میں ہم نے پنجاب میں موجودہ سالانہ ٹوکن ٹیکس کا پچھلے سال سے تقابل کیا تھا اور نان-فائلرز کے لیے تمام کیٹیگریز میں کافی ریلیف دیکھا، سوائے 1000cc اور کم کی گاڑیوں میں لائف ٹائم سلیب کے۔ یہ حکومت کی جانب سے کافی حیران کُن قدم ہے کیونکہ اسے اُلٹا ہونا چاہیے تھا۔
وفاق کے لیے اعلان کردہ سالانہ ٹوکن ٹیکس 2019-20ء میں 1000cc تک کی گاڑیوں پر لائف ٹائم ٹوکن پنجاب ہی کی طرح لگایا گیا ہے۔ البتہ وفاقی دارالحکومت میں ٹیکسی ڈرائیوروں کی کمیونٹی کی جانب سے اسے سخت تنقید کا سامنا ہے کہ جو یا تو سوزوکی FX چلاتے ہیں یا مہران ہی ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ تنقید کسی حد تک بالکل جائز ہے کیونکہ 1000cc انجن تک کی گاڑیوں پر لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس اُن کی مالیت سے قطع نظر ہوکر یکساں لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 90ء کی دہائی کی 1 سے ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کی گاڑی اور تقریباً 15 لاکھ کے جدید ترین ماڈل پر بھی مالک کو برابر ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ بہرحال اسلام آباد کی رجسٹرڈ کاروں کے لیے 1000cc تک کی گاڑی پر فائلر کے لیے ٹوکن ٹیکس 21,000 روپے اور نان فائلر کے لیے 31,000 روپے ہے۔ یہ سوزوکی آلٹو، ویگن آر، کلٹس، بولان، راوی اور یونائیٹڈ براوو سمیت تمام مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کُل سالانہ ٹوکن ٹیکس تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں ٹوکن ٹیکس، انکم ٹیکس اور پروفیشنل ٹیکس شامل ہیں۔ پروفیشنل ٹیکس تمام زمروں میں یکساں ہے یعنی 100 روپے علاوہ لائف ٹائم کیٹیگری کے کہ جس میں یہ وفاقی دارالحکومت میں 1000 روپے ہے۔
فا V2 کے ساتھ ساتھ ٹویوٹا کرولا Xli اور GLi کے تمام ویرینٹس 1200cc سے 1299cc کے زمرے میں آتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں ان گاڑیوں پر ٹیکس فائلرز اور نان فائلرز کے لیے بالترتیب 3350 اور 5100 روپے ہے۔ پاکستان میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیوں کی کیٹیگری 1301cc سے 1499cc تک کی ہے کہ جس میں ہونڈا سٹی، سوِک RS ٹربو اور سوزوکی سوئفٹ کے تمام ویرینٹس آتے ہیں۔ اس کیٹیگری میں سالانہ ٹوکن ٹیکس فائلر کے لیے 6600 اور نان فائلرز کے لیے 9100 روپے ہے۔ واضح رہے کہ سٹی کے 1.3L اور 1.5L ویرینٹس بالترتیب 1339cc اور 1497cc کے برابر ہیں۔ 1.3L ویرینٹ کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ یہ 1300cc ہے جس کے لیے سالانہ ٹوکن ٹیکس مختلف ہے۔ یہاں تک کہ سوزوکی سوئفٹ کی انجن گنجائش بھی 1328cc ہے اور ہونڈا سوِک 1.5L RS ٹربو 1498cc کے انجن سے لیس ہے۔ آگے بڑھیں تو ٹویوٹا کرولا اور ہونڈا سوِک کے تمام ویرینٹس 1600cc سے 1999cc کے انجن زمروں میں آتے ہیں۔ اس میں فائلرز اور نان فائلرز کے لیے بالترتیب 9600 روپے اور 14,100 روپے کے ٹوکن ٹیکس ہیں۔ 2500cc سے اوپر کی تمام گاڑیوں پر فائلرز کے لیے 22,100 روپے اور نان فائلرز کے لیے 32,100 روپے کا سالانہ ٹوکن ٹیکس ہے۔
درحقیقت وفاقی دارالحکومت میں رجسٹرڈ گاڑیوں کا سالانہ ٹوکن ٹیکس اب بھی پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں پر لاگو ٹیکس سے کم ہے۔ اس کا واضح اندازہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت کے ٹوکن ٹیکس تقابل کے اس چارٹ سے ہو سکتا ہے:
اِس چارٹ کی مدد سے کوئی بھی باآسانی اپنی گاڑی کو پنجاب یا وفاقی دارالحکومت میں رجسٹرڈ کروانے کے لیے ٹوکن ٹیکس کا حساب لگا سکتا ہے۔ سال 2019-20ء کے لیے سالانہ ٹوکن ٹیکس کی شرح پر آپ کے کیا خیالات ہیں؟ ہمیں نیچے تبصروں میں بتائیں۔ آٹوموبائل انڈسٹری کے اعداد و شمار پر مشتمل مزید خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیں۔